117

عالمی کتاب میلہ اور ہم مسلمان

عالمی کتاب میلہ اور ہم مسلمان

۔ نقاش نائطی
۔ 966562677707+

ذوق کتب بینی و علم آگہی چاہ ماورائیت کے باوجود، کیا ہم عالم پر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں؟لوگوں میں کتابیں پڑھنے اور کتابوں سے وابستگی کا ذوق قائم رکھنے کے لئے ہی، عالمی سطح پر کتابوں کا بھی ایک دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے اور عالم بھر میں، اس نسبت سے مختلف این جی اوز کی طرف سے کتاب میلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اسی نسبت سے شہر کے ایک کالج میں کتاب میلہ منعقد ہوا۔ جس کی تشہیر تمام طالب علموں کے سرپرستوں کو میل ڈالتے اور ان کے واٹس آپ پر میسیج بھیجتے ہوئے کی گئی تھی ۔

الحمد اللہ اس سال کا کتاب میلہ انتہائی کامیاب مانا گیا کیونکہ الحمد للہ عوامی ھجوم خصوصا پورے میک آپ کے ساتھ نساء کا بھی جم غفیر تھا۔ اس کتاب میلہ میں نہ صرف شہر کے بالکہ ملک و وطن کے بڑے کتاب گھروں کو بھی اپنی اپنی مطبوعات کے اسٹینڈ رکھوانے کا بخوبی انتظام کیا گیا تھا۔ جہاں ہر موضوعات کی نئی و پرانی طبع شدہ کتابیں فروخت کے لئے رکھی ہوئی تھیں اور اس کتاب میلہ میں،

شریک ہونے والے مجمع کا اندازہ کرتے ہوئے، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس لئے مقامی ہوٹل مالکان، فاسٹ فوڈ و جوس سینٹر مالکان سے خصوصی ملاقاتیں کرتے ہوئے، ہر اقسام کے کھانے پینے کا نہ صرف انتظام کیا گیا تھا بلکہ کالج کے کھیل میدان میں تفریح طبع چھوٹے بچوں کو کھیل انتظامات بھی کئے گئے تھے، تاکہ جو فیمیلز اپنی اولاد کے لاؤ لشکر کے ساتھ آتی ہیں انکے بچوں کو مختلف کھیلوں میں مشغول رکھتے ہوئے،انہیں کتب خریداری میں سکون سے وقت نکالنے کا موقع ملے۔

کالج انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق، اس میلے میں 1250 شوارمہ سینڈویچ، 60 لوگوں والی 15 ھنڈیہ کم و بیںش 900 بریانی، ہزار بارہ سو برگر، 1800 کوکاکولا فانٹا لمکا ڈرنکس اور بے تحاشہ چھوٹے اسنیک کے پیکٹس کا کاروبار ہوا تھا۔ تمام فوڈ اسٹال والے خوش تھے، کتاب میلے میں تشریف فرما تمام مہمان خصوصا کالج میں پڑھنے والے طلبہ کے سرپرست نہ صرف خوش و مطمئن تھے بلکہ وہ کالج انتظامیہ سے مل کر،ایسے میلے،سال میں کم آز کم دو تین مرتبہ لگوانے کی درخواست و التجا کرتے پائے گئے تھے۔

اس کتاب میلے میں طلبہ کے سرپرستوں کی طرف سے میناء بازار بھی سنایا گیا تھا جن میں گھریلو کھان پکوان کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے۔ اس کتاب میلہ میں کھان پان اسٹالز کے ساتھ مینا بازار اسٹالز والے جہان ہر کوئی خوش تھے، وہیں پر کتاب گھر مالکان باوجود اتنی محنت و لگن سے کام کرنے کے اور ان کے اسٹال پر آئی مختلف دوشیزائوں کو خریداری پر اچھی آفر دینے اور ان کی خریدی ہوئی کتابیں ان کے گھروں تک پہنچوانے کے انتظام کرتے خصوصی پیکیچ پر مشتمل طبع شدہ بروچر انہیں پکڑواتے ہوئے بھی،

انکی توقع سے بہت کم کتابیں فروخت کرنے میں وہ کامیاب ہوئے تھے۔ ہر کسی کتاب گھر کے مالکان کے بموجب کتاب میلے میں شرکت کے لئے، ان کی لگائی لاگت اخراجات بھی نہیں نکل پائی تھی۔ انہیں بس اطمینان اس بات کا تھا کہ کتاب میلے میں آئے مختلف مہمانوں نے، انسے بروچر لیکر، ان سے رابطہ قائم کر،کتابیں خریدنے کا جو وعدہ کیا تھا وہی وعدے وفا بھی ہوجائیں تو کافی ہے

دراصل فی زمانہ سائبر میڈیا مصروفیات میں، کتب بینی کا ذوق و شوق بتدریج نہ صرف برصغیر ھند و ہاک بنگلہ دیش میں، بلکہ عالمی سطح پر کم ہوتا جارہا ہے، اسی لئے تو شائقین علم و ادب کو جدت پسند کتب بینی کے بجائے کتب سمعی (آڈیوز کتب) کے نت نئے طریقے پڑوسے جارہے ہیں۔ اس سمت “کوکو ایف ایم ڈاٹ کام” کی طرف سے مختلف موضوعات پر،انتہائی معقول قیمت پر،آڈیوز کتب آن لائن مہیہ کی جارہی ہیں

تاکہ فی زمانہ روزانہ کی بنیاد پر، جائے معاش صبح شام آتے جاتے گھنٹوں ریل و کار سفر کرتے اوقات میں، آڈیوز سنتے سنتے ہی، لامحدود علم کے ذخیرے میں سے، کچھ تو اپنی استعداد مطابق علم حاصل کیا جاسکے۔ اس جدت پسند علم پروسی آڈیو علم سمعی دور میں، ہم مسلم مختلف دینی کتب گھر یا اردو کتب گھر، کتنے خود مستفید ہوریے ہیں یا مسلم اردو شائقین ادب کو ادبی و دینی کتب سمعی سہولیات بہم پنچاتے ہوئے، مسلم امہ کو محظوظ کروانے یا انہیں علمی آگہی سے بہرور کرنے کا انتظام کرواتے پائے جارہے ہیں، یہ ہم مسلم ارباب عقل و فہم و ادراک اپنے گریبان میں جھانک کر اندازہ لگا سکتے ہیں

اس موقع پر مکتبہ الحسنات رامپور, اسلام ھاؤس بنگلور ، دارالسلام چنئی، آئی پی ھیچ بک کوزیکوڈ کیرالہ، اسلامک بک نظام الدین دہلی ، ندوة العلماء کتاب گھر، دارالعلوم دیوبند کتاب گھر،بریلوی مکتبہ فکر کتاب گھر،ادارہ ڈاٹ کام جیسے تمام بڑے اسلامی کتاب گھر کے ذمہ دار مل بیٹھیں اور مسلم امہ میں کتب بینی کے زوال پذیر ذوق کو، کتب سمعی ذوق میں بدلتے ہوئے،

دور عصر جدید کےتقاضوں کے تحت مسلم امہ میں علم و آگہی کو ترویج دلوانے کے لئے، اجتماعی شراکت داری میں “کوکو ایف ایم ڈاٹ کام” طرز دینی کتب سمعی کا کوئی ایک یا ایک سے زائد مشترکہ ادارے قائم کرتے ہوئے “اقرآء ایف ایم ڈاٹ” کام جیسا کوئی صوتی آڈیو علم توضیع نظام منظر عام پر لانا وقت کی اہم ضرورت پے

لکڑہاتے اور چرواہے نبیوں کے امتی یہود و نصاری علم و آگہی میں ہمیں پیچھے چھوڑ عالم پر حکمرانی کے اہل بن گئے ہیں اور ہم براہ راست آسمانی خدا کی طرف سے،اسکے حکم سے اسکے خاص فرشتے حضرت جبریل آمین کے، آپﷺ سے معانقہ کرتے ہوئے، ان میں لامحدود علم و آگہی ودیعت کرتے ہوئے، انہیں معلم نبی کے منصب تمکنت پر براجمان کئے جانے والے، نبی آخر الزمان، رحمت اللعالمین کے، ایک تہائی عالم کی آبادی ڈھائی سو کروڑ ہم مسلمان، آج علم عصر حاضر سے ایک حد تک بے بہر رہتے ہوئے،

عالم یہود و ہنود و نصاری کے قدموں پر، نشان عبرت بنائے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ یہ بیسویں صدی عالم پر یہود و نصاری غالبیئت کی صدی تھی لیکن سکوت خلاف عثمانیہ پر پورے سو سال گزرنے کے بعد، اب اگلے سال 2023 کے بعد شروع ہونے والی صدی، انشاءاللہ اسلامی غلبے والی صدی ہمیں ثابت کرنا ہے۔اس کے لئے ہمیں مسلم امہ میں، ہر طریق سے،علم دینیہ کی روشنی میں، علم عصر حاضر کو ان میں ودیعت کرنا ہوگا،چاہئے

اس کے لئے، ہمیں جدت پسند تعلیمی گھر، اسکول و کالجز و یونیورسٹیز شروع کرنی پڑے یا کہ “کوکو ایف ایم ڈاٹ کام” طرز “اقراء آیف ایم ڈاٹ کام” جیسے متعدد ویپ پورٹل قائم کرتے ہوئے، صد فیصد تعلیمی آگہی والے، کیرالہ کے بچے بچے تک علم عصر جدید ودیعت کئے جیسا، مسلم آبادی کے ہر بچہ میں دینی اثات کے ساتھ علم عصر جدید ودیعت کرنے کی راہیں تلاشنی ہونگی۔ ہم اقرآء والی وہ قوم ہیں، جن پر اللہ نے اپنے اتارے گئے

پہلے حکم تحکمی اقرآء یعنی پڑھنے کے حکم ذریعہ، اور دوسرے حکم خداوندی، “خلق الانسان من علق” انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کئے جانے والے علم سائینس کو،قرآنی علم کی گتھیوں سے سلجھانے کا حکم خداوندی ملا تھا۔ اور جب تک ہمارے قرون اولی کے اسلاف، حصول علم عصرحاضر،حکم خداوندی پر عمل پیرا ریے،وہ حافظ قرآن،تدبر قرآن کے ماہر عالم ہوتے ہوئے وقت کے بڑے بڑے سائینس دان موجد و محقق بنے،عالم پر اسلامی حکومتوں کے قیام کی راہیں آسان بناتے رہے

اور جب عالمی اسلام دشمن، یہود و نصاری سازش کندگان کی سازشوں کا شکار بن، سکوت غرناطہ و سکوت بغداد بعد، برطانوی سامراج میں، علم عصر جدید سے ماورا مسجدوں مدرسوں اور خانقاہوں کی چہار دیواروں میں مقید، علوم دنیوی پر ہی محصور چھوڑ دئیے گئے تو ہم مسلم علماء اپنی تحقیقانہ صلاحیتوں کو دینی علوم تحقیقات پر صرف کرتے ہوئے، رافضئیت بریلوئیت احمدئیت ،قادیانیت اور وحدت الوجود کے فرقے بناتے رہے۔ چونکہ آج کی جدت پسند برطانوی شہنشاہیت سے ماورا، جمہوریت والی عوامی آراء پر گامزن، ہمیں اپنی پسند کے علم کو حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے

اسلئے 1457 سال قبل غار ثور میں خاتم الانبئاء سرور کونین رحمت للعالمین پر، رب کائینات کی طرف سے اتارے گئے، پہلے اور دوسرے حکم خداوندی مطابق، ہمیں قرآن مجید کی روشنی میں، علوم و ارض سماوات، بر و بحر و جبل و جنگل و صحراء میں بسنے والی تمام مخلوقات، و ذرے ذرے (ایٹم) کی افادیت والے علم شمش و قمر و فلکیات و حرب جدید ڈرون سازی، میزائل سازی کے اسرار و رموز کو سیکھنا ہوگا، تبھی تو ہم پھر ایک مرتبہ زوال امریکہ بعد، عالم پر حکمرانی کے اہل بن پائیں گے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں