138

بھٹہ مزدوروں کی آہ و بکا کون سنے گا؟

بھٹہ مزدوروں کی آہ و بکا کون سنے گا؟

ازقلم: ایس ایم طیب

بھٹہ مزدرورں کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے بھی پرانی ہے، ان کی جدوجہد کااحاطہ کیاجائے تو ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے جوکہ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، پاکستان بھر میں جس طرح لیبر قوانین کی پامالی ہورہی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی-بھٹہ خشت مزدور آج بھی اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیبر قوانین کا عملدرآمد نہ ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے، بھٹہ خشت مزدور آج بھی پیشگی نظام کی چکی میں پس رہے ہیں جس کی بدولت محنت کش مزدور طبقے کو انصاف میسر نہیں،

حکومت پاکستان نے انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے 30 سے زائد معاہدے کیے ہوے ہیں جن پر عمل درآمد کرنے کےلیے کوی تیار نہیں، بھٹہ خشت انڈسٹری سمیت مختلف انڈسٹریوں مں پاکٹ یونینز نےمزدوروں کو ٹھیکیداری نظام میں تقسیم کررکھا ہے جوکہ بدقسمتی سے ان کے حقوق کی بات کی بجائے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور خکمرانوں کی زبان بولتے ہیں۔ بھٹہ مزدوروں پر آج بھی ظلم ہوتا ہے،

جن کے ہاتھوں سے مسجد، مندر، گرجے، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور دیگر بڑی عمارتیں تعمیر ہوئیں ان کے بچوں کو آج بھی تعیلم میسر نہیں، وہ بیمار ہوں تو علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں ہے جبکہ ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمٹیاں بھی کوئی اہم کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں- یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ضلعی سطح پر قائم کی گئی یہ کمیٹیاں شہریوں کے بنیادی حقوق دلوانے کی بجائے ان کے حقوق غصب کروانے میں پیش پیش ہیں اسلئے ان کمیٹیوں کا وجود بے معنی ہوچکا اور ملک میں نعرے تبدیلی کے لگائے جاتے ہیں

حالانکہ پنجاب میں تبدیلی سرکار برسراقتدار ہے جوکہ غریب و مفلس ووٹرز کی جانب سے تبدیلی کے نام پر ووٹ حاصل کرکے برسراقتدار آئی اور بھاری اکثریت سے جیت کر اسکی پنحاب حکومت موجود ہے لیکن پھر بھی یہ مزدور طبقہ جوکہ پہلے سے ہی پسا ہوا ہے کو مزید چکی میں پسنے کے لئے ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پر چھوڑاجارہا ہے،

اوپر سے یہ نام نہاد کمیٹیاں عوامی فلاح و بہبود کے نعروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھٹہ مزدوروں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، رفع حاجت کے لیے باتھ روم کی سہولت میسر نہیں، لیبر قوانین کے تحت ان کو سہولتیں فراہم نہیں کی جارہیں، پنشن سیکم کے تحت EOBI کے حوالے سے کارکردگی بھی انتہائ مایوس کن ہے-

ہر سال کم ازکم اجرت کا نوٹیفکیشن جاری کیاجاتا ہے جس کے تحت بھٹہ خشت مزدور کی کم از کم اجرت 1850روپے فی ہزار اینٹ ہے، سپیشل اینٹ اور ٹائل کی مزدوری فی ہزار 2185 روپے ہے، کچی بھرائی فی ہزار 601 روپے، نکاسی فی ہزار 468 روپے اور اس مہنگائی کے پیش نظر مزدوروں کی تنخواہ 40 ہزار ہونی چاہیے لیکن ملک بھر میں عمومی طور پر اور بالخصوص پنجاب بھر میں کسی بھٹہ خشت پر بھی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہا

جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب بھر میں بھٹہ مزدوروں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے احتجاج اور دھرنوں کی ٹھان لی ہے اور تاحال ان مزدوروں کو لالی پاپ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہورہا جوکہ گذشتہ ادوار میں بھی وطیرہ رہا ہے اسلئے اگر ملک میں حقیقی تبدیلی چاہئیے تو ان بیچارے جفاکش طبقہ کی دعائیں لینا ہونگی اور حکومتوں کو تاریخی فیصلے کرنا ہونگے تاکہ ہمارے ملک میں رعایا کے لئے آئے روز پہیہ جام، روڑ بلاک، بھوک ہڑتالوں، فاقہ کشی اور خودسوزیوں کی نوبت نہ آئے

اسلئے حکومت وقت کو سوچنا ہوگا اور ہر ضلع کی سطح پر مزدوروں کو ان کے حقوق دینا ہونگے کیونکہ قانونی و اخلاقی طور پر جتنا حق اس ملک میں اشرافیہ کے بسنے کا ہے اتنا ہی حقدار ایک بھٹہ مزدور بھی ہے اسلئے اس مسئلہ پر فوری طور پر نوٹس لیا جانا ناگزیر ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں