پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 140

سیاسی تنازعات کا سیاسی حل نکلاجائے !

سیاسی تنازعات کا سیاسی حل نکلاجائے !

ُُپاکستان میں جمہوریت پسند طبقات اور سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ پارلیمان کی بالاستی کو ہمشیہ سے چیلنجز درپیش رہے ہیں،اس بات پرسیاسی جماعتیں بھی زور دیتی آئی ہیں کہ مسائل کا حل پارلیمنٹ میں ہی بحث و مباحثے سے تلاش کرنا چاہیے ،لیکن تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ملک میں جب کبھی کوئی بڑا سیاسی مسئلہ یا بحران سر اٹھاتا ہے

تو پارلیمان کے اندر موجود جماعتیں پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں یا عدالتوں کا رخ کرتی ہیں ،اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑتا ہے،لیکن اس بری روایت کوسیاسی قیادت چھورنے کیلئے تیار نظر نہیں آرہی ہے اور پا رلیمانی معاملات کو مسلسل سڑکوں و عدالتوںمیںحل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،اس سے ایسا ہی لگتا ہے کہ سیاسی قیادت سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جب بھی سیاسی قوتوں نے سیاسی معاملات پر پارلیمان سے باہر سیاست کی تو اس سے نہ صرف پارلیمنٹ کمزور ہوئی، بلکہ جمہوری نظام کو بھی نقصان پہنچا ہے ، اس کے باوجود ہر سیاسی معاملہ عدالت میں لایا جارہا ہے ،اعلی عدلیہ بھی بار ہا اپنے ریماکس میں باور کر اچکی ہیں کہ قانون سازی کا مرکز پارلیمان ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ، سیاسی معاملات کو عدالت میں لانے کی بجائے

پارلیمان میں مل بیٹھ کر حل کیا جائے ،مگر حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کررہی ہے نہ اپوزیشن تاحال پارلیمان میں واپسی پر تیار نظر آرہی ہے ،جبکہ دونوں ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ خالص سیاسی تنازعات کا حل عدالتوںسے نہیں ،سیاسی بات چیت سے ہی نکلا جاسکتا ہے۔اتحادی حکومت کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ سیاسی تنازعات کو ہوا دینے کی بجائے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کو کوشش کرے

،لیکن اتحادی قیادت معلات سلیجھانے کی بجائے مزید الجھانے میں لگی ہے ،ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف سیاسی اختلافات بھلا کر آگے بڑھنے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف قیادت کو سیاسی انتقام کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، اس لیے ہی تحریک انصاف قیادت مذاکرات کیلئے تیار ہے نہ پارلیمان میں واپسی پر آما دہ نظر آتی ہے ،تاہم اگر پی ٹی آئی پا لیمان سے باہر ہی بیٹھی رہے گی

تو قانون سازی میں اپنے اعتراضات کو دور کیسے کیا جائے گا ،ایسے میں پارلیمنٹ میں ہو نے والی ہر قانون سازی کو یک طرفہ قرار دیے کر عدالتوں کا ہی رخ کیا جائے گا ،اتحادی حکومت اپنی من مانیاں کرے اور اس پر پی ٹی آئی احتجاج کرتی رہے ،اس طرح معاملات سد ھرنے کے بجائے مزید بگڑ تے ہی جائیں گے ، اس کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس کیلئے دونوں کوآج نہیں تو کل مذاکراتی میز پر آنا ہی پڑے گا۔
اس وقت ملک انتہائی نازک صورت حال سے گزر رہا ہے ،ایک طرف معاشی بد حالی ہے تو دوسری جانب سیلاب زدگان کی بحالی کا مسئلہ در پیش ہے ،اس صورت حال کا کوئی حکومت اکیلئے مقابلہ نہیں کر سکتی،سب کو مل کر بحرانی صورتحال سے نکلنا ہو گا ،موجودہ پارلیمنٹ کی مدت میں گیارہ ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں

،یہ وقت ہے کہ سارے سیاسی وقانونی معاملات کو مل کر طے کیا جائے ،آئندہ انتخابات کے شو ک و شبہات سے پاک کرنے کاکام بھی پا رلیمان میں ہی طے کیا جاسکتا ہے ،قانون سازی کے ساتھ جب اہم تعیناتیاں باہمی مشاورت سے ہوگی تو آئندہ عام انتخابات کا انعقادبھی شفاف اور پر امن انداز میں ہو سکے گا ،پارلیمنٹ سے باہر پر زور احتجاج ہو سکتا ہے،مگر قانون سازی کے ساتھ معاشی مسائل کا حل نہیں نکلا جاسکتا ،اس کیلئے ملک میں سیاسی استحکام لانا ہو گا جو کہ سیاسی جماعتوں کے مکالمے میں ہی پو شیدہ ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ محاذآرائی کی سیاست میں پہلے ہی ملک و عوام کا بہت نقصان ہو چکا ہے ،اس لیے ضرور ہو گیا ہے کہ سیاسی معاملات کا سیاسی حل ہی نکلا جائے، آئے روز کی مارا ماری کی بجائے ایک بار خود ہی مل بیٹھ کربات کرلی جائے اور ایک ہی بارایک دوسرے کی بات تسلی سے سن لی جائے کہ جس کا جتنا قصور نکلتا ہے اس کا اعتراف کرلیا جائے اور آگے بڑھنے کے لیے آئینی دائرے کھینچ لیے جائیں

،یہ سب ہوجائے تو جمہوریت کے نئے میثاق کے لیے ایک الگ سے میز لگالی جائے ،اگرسیاسی قیادت ماضی قریب کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے کسی مْک مْکاپر پہنچ جائے تو ہماری شعوری ترقی کا سفر تیز سے تیز تر بھی ہوسکتا ہے ،اگر نہیں تو پھر کوہلو کے بیل کی طرح ایک ہی ائرے کا سفر ہے کہ گھومتے جائیںاور جھومتے جائیں،تیل تو عوام کا ہی نکل رہاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں