94

بصارت اور بصیرت

بصارت اور بصیرت

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

ذرا تصورکی آنکھ سے دیکھیںوہ زمانہ کتنا خوفناک ہو گا جب لوگ اپنی بیٹیوںکو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے یا جہالت کے باعث اپنی سوتیلی مائوں بہنوں کو بیچنا جواں مردی خیال کرتے ، تاریخ میں یہ بھی درج ہے کچھ دیوث ایسے بھی تھے جو ان سے شادیاں کرلیا کرتے تھے الحفیظ و الامان وہ کیسا ہولناک دور تھا پھر نبی آخرالزماں ﷺ رحمت العالمین بن کر دنیا میں تشریف لائے جس کی برکت سے ماں کو جنت، بیٹی کو رحمت،بیوی کو راحت بننے کا شرف حاصل ہوا اوریوںعورت کا ہر ہر رشتہ قابل ِ توقیر بن گیا

اور اسلام نے بے راہروی کا خاتمہ کرکے خاندانی نظام کو مضبوط و مستحکم بنادیا۔پھر کچھ اسلام دشمن قوتوںنے خواتین و حضرات کے مساوی حقوق کا شوشا چھوڑ کراس خاندانی سسٹم کو تباہ کرنے کے لئے اپنے خوفناک ایجنڈے پرکام شروع کردیا انہوں نے عورت کو ایک ہتھیارکے طورپر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اسی لئے شاید زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ مسلمانوں کے خلاف کتنی عالمی سازشیں ہورہی ہیں

قدم قدم پر ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ برپاکرنے کی کوششیں جاری ہیں جن میں سے ایک بڑ ا فتنہ مسلمان عورتوں کو آزادی کے نام پر اسلام اور اسلامی شعار کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسانا ہے۔ الحمد للہ مسلمان خواتین کی اکثریت راسخ العقیدہ ہیں پردہ ان کی خاص پہچان ہے دور ِ حاضرمیں اس کی جدید شکل حجاب ہے جو دنیا بھرمیں بے حد مقبول ہے لیکن اسلا م دشمن قوتوں نے کچھ فیشن زدہ ،خاص آزاد خیال، زیادہ تعلیم یافتہ اور فیملی سسٹم سے بیزار خواتین میں مردوںکی برابری کے حقوق کا جھانسہ دے

کر اسلامی اقدار کو اس قدر خوفناک بناکر اس انداز میںپیش کیا کہ وہ ان کے رنگ میں رنگتی چلی گئیں اور میراجسم میری مرضی جیسا خوفناک نعرہ ایجاد ہوا جو مادرپدر آزادی کا لوگو بن گیا حالانکہ جتنی عزت عورت نے اسلام نے دی ہے اس کی مثال نہیں ملتی اس لئے عام مسلمان عورت اس جال میں نہیں آئیں لیکن حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو پڑھی لکھی کہنے والی مسلم خواتین کی ایک محدود تعداد بطورِ چارہ اس سازش میں استعمال ہونے کے لئے بخوشی خود کو پیش کررہی ہیں ۔ ایکِ حدیث ِ مقدس میں کہا گیاہے

کہ :’’جب تم حیا نہیں کرتے تو تم جو چاہوکرو’’ کے مصداق شترِ بے مہار کی طرح جو چاہے کرتی پھر رہی ہیں۔اور جو شیطان ان پر القا کررہا ہے وہ اسے ببانگِ دہل بیان کررہی ہیں۔یقینا جس طرح مسلمان مردوں کیلئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ اور حضور پرنورﷺ کے فیض یافتہ حضرات صحابہ کی زندگی مشعلِ راہ ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی عظیم تعلیمات اور صحابیات کی حیاتِ طیبہ مسلمان عورتوں کے لئے مینارہ ہدایت ہے۔

بعض احادیث میں انتہائی واضح طورپربیان کیاگیاہے کہ صحابیات رضی اللہ تعالی عنہا کس قدر زیادہ پردہ کا اہتمام کیا کرتی تھی اور ان میں کس قدر زیادہ شرم و حیا ہو اکرتی تھی۔سید النساء حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی شرم و حیا باریحضرت اسما ء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت فاطمہؓ بنت رسول اللہ ﷺ کی رخصتی کے وقت موجود تھی جب صبح ہوئی تو ہم اللہ کے محبوب نبی ﷺ کے گھر آئے اور حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا اے امِ ایمن تم میرے بھائی کو بلا کر لاؤ ! انہوں نے عرض کیا : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے بھائی ہیں

اور آپ نے ان کا نکاح (اپنی شہزادی سے)کیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاںامِ ایمن رضی اللہ تعالی عنہا پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے۔ نبی پاک ﷺ نے ان پر کچھ پانی چھڑکا پھر نبی پاک ﷺ نے حضرت امِ ایمنؓ سے فرمایا : فاطمہؓ کو بلا کرآوحضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں : حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب آئیں تو وہ شرم و حیا سے کانپ رہی تھیں ، حضور ﷺ نے ان سے فرمایا :

ساکن ہو جاؤ ! میں نے تمہارا نکاح اس شخص سے کیا ہے جو مجھے اپنے اہلِ بیت میں سب سے زیادہ محبوب ہے پھر نبی محترم ﷺ نے ان پر بھی کچھ پانی چھڑکا پھر رسول اللہ ﷺ واپس پلٹے تو حضور ِ محترم نے اپنے آگے ایک سایہ دیکھا ، تو استفسار فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا :میں اسما ء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا ہوں۔حضور ﷺ نے دریافت فرمایا : تم رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کی رخصتی میں آئی ہو ؟

میں نے عرض کیا : جی ہاں ! پس حضور ﷺ نے میرے لئے دعا فرمائی۔ (المستدرک ،ذکر مناقب فاطم بنت رسول اللہ ﷺ برقم : ،ج:،ص)۔ غورکریںیہ خاتون ِ جنت سیدہ کائناتؓ کی شرم و حیا کا عالم تھا اور افسوس آزادی کے نام پر آج کی خواتین مختلف چینلز پر اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقات کی باتیں چٹخارے لے لے کربیان کرتی نظر آتی ہیں آج شوہر کی شرعی خواہش کی تکمیل کو ریپ کا نام دیا جارہا ہے ہائے تعجب ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت فرماتی ہیں:

ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفرِ حج میں حالتِ احرام میں تھیں، جب ہمارے پاس سے کوئی سوار گزرتا تو ہم اپنی چادروں کواپنے سروں سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتیں اور جب لوگ گزر جاتے تو ہم چہرے کھول لیتیں۔(سنن ابی دائود ، کتاب الحج ، باب فی المحرم تغطی وجھھا ، برقم : ،ج:،ص) غور فرمائیں کہ احرام کی حالت میں چہرے سے کپڑامس (TOUCH)کرنا منع ہے ،اس حالت میں بھی صحابیات اِس احتیاط کے ساتھ چہرہ چھپاتی تھیں کہ کپڑاچہرے سے مس نہ ہواور چہرہ غیر مردوں سے چھپا رہے

۔اور آج کل کی یہ آزادی کی متوالی خواتین ! میرا جسم میری مرضی کا بے سرا راگ الاپ رہی ہیں۔شرعی پردے کے اہتمام کو قید وبند کی صعوبت سمجھ رہی ہیں۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو فرسودہ قرار دے رہی ہیں۔ اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہی ہیں۔حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت فرماتی ہیں : جب قران مجید کی یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی :(الاحزاب ))ترجمہ از کنزالایمان:اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں تو انصار کی خواتین اپنے گھروں سے نکلتے وقت سیاہ چادرسے خود کوچھپا کرنکلتیں ان کو دیکھ کردور سے لگتا تھاکہ گویاان کے سروں پر کوے بیٹھے ہیں۔

(سنن ابی دائود ، کتاب اللباس ، باب فی قولہ )انصاری صحابیات کے پردے کا اہتمام ملاحظہ کریں کہ ان کی چادروں کو جو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دور سے کالے کوؤں کی مانند دکھائی دینے سے تشبیہ دی اس کا حسن ِظن ملاحظہ کریں اور مادر پدر آزادی کی شائق ان خواتین کو دیکھئے تو آج کی مسلم خواتین کی آزادی کے حق میں بے سروپا دلیلوںپر افسوس ہوتاہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت فرماتی ہیں :جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی (النور)ترجمہ از کنزالایمان:اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ تو عورتوں نے اپنی تہبند کی چادروں کو کناروں سے پارہ پارہ کیا

اور ان سے اپنے چہرے ڈھانپ لئے۔(سنن ابی دائود ، کتاب اللباس برقم : ج:،ص)۔امام ابوداود اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں امِ خلاد نامی ایک خاتون پردے کی حالت میں نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں اپنے بیٹے کاحال دریافت کرنے کے لئے حاضر ہوئیں ان کے بیٹے جنگ میں نبی پاک ﷺکے ساتھ گئے او رجنگ میں شہید ہو گئے کسی صحابی نے آپ کو نقاب میں دیکھ کر کہا :اس وقت بھی آپ نے نِقاب ڈال رکھا ہے ، آپؓ نے جواباً انہوں نے فرمایا : میں نے بیٹاضرور کھویا ہے، حیا نہیں کھوئی۔(سنن ابی دائود ، کتاب الجہاد ،

باب قتال الروم)حضرت امِ خلادؓ ؓکے یہ کلمات راہِ راست سے منحرف خواتین کے لئے یقینا ایک تازیانہ عبرت ہے ‘‘میں نے بیٹاضرور کھویا ہے، حیا نہیں کھوئی کاش یہ خواتین ان کلمات کو فقط بصارت کے نور سے نہیں بلکہ بصیرت کی آنکھوں سے پڑھیں۔ یقینا اللہ پاک جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ دعاہے کہ میرا جسم میری مرضی کا بے ہودہ نعرہ لگانے والے اپنے طرزِ عمل پر غورکریں اللہ سے معافی مانگیں اور ہدایت طلب کریں اللہ تبارک تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطافرمائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں