ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 109

حکومت نہ جانے کب چلی جائے !

حکومت نہ جانے کب چلی جائے ! 

ایک تہائی ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور یو این سیکرٹری جنرل سمیت دیگر سر برہان مملکت پانی اور قرضوں میں ڈوبے پاکستان کی مدد کے لیے عالمی امداد اور قرضوں میں چھوٹ کے لیے بار بار اپیلیں کررہے ہیں، لیکن اسلام آباد کا خوفناک سیاسی منظرنامہ بالکل مختلف پیغام دیے رہا ہے ،حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے سے دست گریباں ہر حدود پار کرنے پر تلے ہیں ،قومی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے

ذاتی مفاد کے پیش نظر حصول اقتدار میں ہر جائزو ناجائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں ، یہ گندی سیاست ہی نہیں، خطرناک سیاست بھی ہے، یہ عوام کے مفاد میں ہے نہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے اچھا شگون ہے، لیکن جمہوریت کے علم بردار ہی جمہوریت دائو پر لگارہے ہیں۔
اس وقت ملک افرا تفری کا شکار ہے ،معیشت عوام سے متصادم ہے ،عوا م حکومت سے متصادم ہے

،جبکہ حکومت صرف ایک ہی شخص سے متصادم ہے ،حکومت اور عالمی طاقتیں سب ایک بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ اس ایک شخص کو مائنس کر دیا جائے جو ان سب کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے ،لیکن اس ایک شخص کو جتنا دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس کی انتی ہی حمایت بڑھتی جارہی ہے ،

حکومت جانتے بوجھتے ماننے سے گریزاں ہے اور اس کے سد باب کیلئے طاقت و تشدت کا پرانا فارمولا آزما رہی ہے ،حکومت کے سارے فارمولے ناکام اور تحریک انصاف قیادت کی مقبولیت میں مزید دن بدن آضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔اتحادی حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی گھبرائی ہوئی ہے اور اس گھبراہٹ میں ہی عوام مخالف فیصلے کرتی جارہی ہے ،حکومت ایک طرف دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے ملک کو دیو لیہ ہونے سے بچالیا ہے ،مگر دوسری جانب حکومتی فیصلوں کے بوجھ نے عام آدمی کی کمر توڑ کررکھ دی ہے

،صرف اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں کے مسائل ہی باعث توشویش نہیں ،صنعتی رفتار اور کاروباری سرگرماں بھی مدھم پڑ چکی ہیں ،سٹیٹ بنک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملک میں براہ راست بیرونی سر مایہ کاری میں چھبیس فیصد کمی آئی ،جبکہ برامدات میں چوبیس فیصد کمی ہوئی ہے ،ڈالر کا بھائو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے ،یہ منطر نامہ اس امر کی دلیل ہے

کہ حکومت کی ساری پا لیسیاں نتایج نہیں دیے رہی ہیں کہ جن کے دعوئے کیے جاتے رہے ہیں ، حکومت اب اسحاق ڈار پر انحصار کرتے ہوئے امید وابستہ کررہی ہے ، لیکن یہ وہی اسحاق دار ہیں کہ جن کے باعث آج معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ۔اتحادی حکومت ایک طرف اسحاق ڈار اور میاں نواز شریف کو واپس لانے میں کو شاں ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف قیادت کو مائنس کرنے کیلئے تمام فار مولے آزمارہی ہے

،لیکن اس کے نتایج بالکل مختلف نکل رہے ہیں ،تحریک انصاف قیادت عوام میں غیر مقبول ہونے کی بجائے مزید مقبول ہو رہی ہے ، تحریک انصاف کے احتجاج اور جلسوں میں عوام کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ،عوام میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے اور حکومت ان سب خدشات سے بے خبر عوام کو ڈرانے اور دھمکانے میں لگی ہے ،رانا ثنا اللہ عوامی احتجاج کے خلاف طاقت کے استعمال کی باتیں کررہے ہیں ،اس سے عوام کے صبر کا پیما نہ لبر یز اور غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ تحریک انصاف قیادت عوام کے اندر بڑھتے غصے کی چنگاری پر تیل چھرکنے کی بجائے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی کال دینے سے گریز کررہی ہے ،تاہم حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس آگ کو بڑھکانے سے باز رہے ، تحریک انصاف قیادت بار بار انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے ،اتحادی بھی اقتدار میںآنے سے قبل انتخابات ہی چاہتے تھے ،اگر اب تحریک انصاف وہی بات کررہی ہے

تو ہار نے کے خوف سے انتخابات سے بھاگنا نہیں چاہئے ،تحریک انصاف کا مطالبہ درست ہے کہ اس وقت ملکی مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں ،اتحادی حکومت کی مدت بڑھا کر کسی کو واپس لاکر یا کسی کو ماینس کرکے سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں کامیاب ہو جائیں گے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔
اس بدلتی صورت حال میںدیکھنا ہو گا کہ نیویارک سے واپسی پر شہباز شریف قومی سیاست کے حوالے سے کیا فیصلے کرتے ہیں،یہ مناسب ہو گا کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور ارکان اسمبلی کو عالمی لیڈروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ عام انتخابات کی واضح تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے بتا ئیں کہ انتخابات کے انعقاد کے لئے عبوری حکومت کب قائم کی جائے گی

،اس طرح ملکی سیاست میں پائی جانے والی بے یقینی ختم ہو جائے گی،اگر ایسا نہیں کرتے ہیں اور اپنی مدت پوری کرنے کی ضد پر قائم رہتے ہیںتوملکی سیاست میں محاذ آرائی کے ساتھ انتشار بھی مزید بڑھے گا اور اس انتشار کے نتیجے میںکچھ بھی ہو سکتا ہے ،اگر حکومت کے سر پر مقتدر کاہاتھ ہے تو پس پردہ تحریک انصاف قیادت کے تعلقات بھی بحال ہو رہے ہیں ، حکومت جانے کب کیسے چلی جائے، کچھ پتہ بھی نہیں چلے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں