127

شامت ِ اعمال

شامت ِ اعمال

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
وہ ایک درخت کی چھائوں میں بیٹھا نہ جانے کس سوچ میںگم تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے پائوں میں کوئی نو کدار کانٹا چبھودیا ہو بے اختیار اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی اس نے جلدی سے پائوں پر ہاتھ پھیرا ایک موٹا تازہ مکوڑا جلدمیں پیوست تھا اس نے پائوں سے ا لگ کرنا چاہالیکن اس کے نوکدارکالے کالے دانت گہرائی تک پیوست تھے اس نے زور سے جھٹکادے کر مکوڑے کو پائوں سے الگ کیا

تواس کا سر دھڑ سے الگ ہوگیا اس کے باوجود اس کا سر ابھی تک پائوںکے ساتھ ہی چمٹاہواتھاوہ سوچنے لگا اتنی زبردست گرفت۔۔کمال ہے اس نے ادھر ادھرنظردوڑائی درخت کی جڑوں سے موٹے موٹے مکوڑے نکل کر تنے کے اوپر چڑھ رہے تھے اور بہت سے زمین پر چاروں اطراف پھیلے ہوئے تھے اسے ایک کھیل سوجھا وہ کھیل اس کی فطرت کا عکاس تھا اس نے موٹے موٹے مکوڑوںکاانتخاب کیا

انہیں پکڑکر اپنے بازو پرچھوڑدیا وہ مکوڑے اس کے بازو پر پھیلتے چلے گئے دو تین نے خوراک کی تلاش میں اس کے بازو پر اپنے تیزنوکدار دانت پیوست کردئیے اس نے پہلے کی طرح زوردار جھٹکا دے کر انہیں بازو سے الگ کرنا چاہا ان کے سربھی دھڑ سے الگ ہوگئے دھڑ تڑپ رہے تھے اور سراس کے بازو کے گوشت میں پیوست تھا نہ جانے کتنی دیر وہ اسی انداز سے مکوڑوںکا قتل ِ عام کرتارہا یہ نوجوان حجاج تھا

جوتاریخ میں ججاج بن یوسف کے نام سے مشہور ہوا وہ انتہائی ظالم، سفاک اور بے رحم انسان تھا جب بھی دنیا کے ظالم ترین شخصیات کا تذکرہ ہوگا اس میں ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل ثقفی کا ضرورذکرکیا جائے گا ۔ حجاج بن یوسف یکم جون، 661 ء حجاز (سعودی عرب )کے ایک علاقے طائف میں پیدا ہوا ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی۔ جو ایک مدرس تھا۔

حجاج کا بچپن سے ہی اس کا مزاج حاکمانہ تھاجس کی بناء پر اس نے مکتب میں اپنے ہم جماعتوں پر اپنی دھاک جمارکھی تھی تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے تعلیم و تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن یہاں اس کا دل نہ لگا وہ دنیا میں نام پیدا کرنا چاہتا تھا تعلیم و تدریس ایک روٹین کا کام تھا اس ماحول سے تنگ آکر حجاج بن یوسف طائف چھوڑ کر دمشق جا پہنچا اور کسی نہ کسی طرح اس وقت کے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے ایک وزیر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ ترقی کرتا چلاگیا

وزیر نے اپنی جاگیر کا منتظم مقرر کر دیا انہی دنوں اتفاق سے عبد الملک بن مروان کی فوج میں سستی اور کاہلی سے مسائل پیدا ہوگئے جس سے کچھ بااثر سپاہی بغاوت پر اتر آئے جس سے کئی گرو پ بن گئے جس سے نمٹنے کے لئے عبدالملک بن مروان نے محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جب اپنی پریشانی کا ذکراس نے اپنے ایک وزیر سے کیا وزیر نے مؤدب ہوکر کہا جناب ایک شخص کو میں جانتا ہوں اس کا نام حجاج ہے میرے خیال میں وہ اس کام کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ لیکن وہ انتہائی سخت گیر اورسفاک ہے

معافی کا لفظ شاید اس کی لغت میں ہی نہیں ہے اس لئے میں کسی فعل کا جوابدہ نہیں ہوگا۔یہ سن کر عبدالملک بن مروان نے تلخی سے جواب دیا مجھے ایسے ہی شخص کی تلاش ہے اس طرح حجاج خلیفہ کی فوج کا حصہ بن گیا اختیار ملتے ہی اس نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اس نے چندہی ماہ میں ظلم،سفاکیت، اور بربریت کی ایسی مثالیں قائم کردیں کہ پوری اموی فوج اس سے دہشت کھانے لگی۔

حتیٰ کہ خود وہ وزیر بھی اس کی سخت گیری کا شکار ہوگیا جس نے اس کی عبدالملک بن مروان سے سفارش کی تھی۔ پھراس کی ’’کارکردگی‘‘ کے پیش ِ نظر حجاج بن یوسف کو عبدالملک بن مروان نے مکہ، مدینہ، طائف اور یمن کا نائب مقرر کردیا اور اپنے بھائی بشر بن مروان کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں وہ 20 سال تک کوفہ کا حکمران بنا رہا عبدالملک بن مروان اس کا اس حدتک گرویدہ تھا

کہ وہ اس کے کسی معاملہ میں دخل دینے سے گریزکرتا رہا اسی بناء پر حجاج بن یوسف نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیںاس کے دور میں مسلمان مجاہدین نے چین کا کافی علاقہ فتح کرلیا حجاج بن یوسف کا سب سے بڑا کمال ہے کہ اس نے ہی قرآن پاک پر اعراب لگوائے تاکہ پوری دنیا میں ایک ہی تلفظ کے ساتھ قرآن پاک پڑھا اور سنا جائے ، اللہ تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا حجاج بن یوسف حافظِ قران تھا وہ شراب نوشی اور بدکاری کو انتہائی برا سمجھتا تھا

اس کے نزدیک یہ ناقابل ِ معافی جرم تھاوہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی حاوی ہوگئی اور وہ برائی تھی ؟ ظلم ۔۔۔حجاج بن یوسف فطرتاً سفاک اوربہت ظالم تھا جب اسے کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ تھا تو اس کی دہشت پوری دنیا میں پھیل گئی یہ وہ دور تھا جب ایک طرف عظیم فاتح موسیٰ بنؒ نصیر اور محمد ؒبن قاسم عالم ِکفر سے نبرد آزما ہوکر فتوحات پر فتوحات کئے جارہے تھے

اور اسی دوران حجاج بن یوسف کے شر سے کوئی محفوظ نہ تھا اس سے اتفاق نہ کرنے والے صحابہ کرام، مخالف تابعی، خلق ِ خدا،اولیاء کرام اور منبرو محراب پر سچ بیان کرنے والے علماء کے خون کا وہ پیاسا ہوگیا محققین کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ڈیڑھ لاکھ انسانوں کا قاتل تھا ،اس کے عقوبت خانوں اور سرکاری جیلوں میں بیک وقت اسی اسی ہزار قیدی ہوتے جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ عورتوںکی تعداد تھی

اس نے خواتین، مرد بچوں بوڑھوں سمیت اس نے کسی کو نہ بخشا جسے اپنا مخالف سمجھا بلادریغ موت کے گھاٹ اتاردیا اس کی سفاکی اس قدر بڑھ گئی کہ عورتیں اس کا نام لے کر اپنے بچوںکوڈرایا کرتی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن زیبرؓ ایک جلیل القدر صحابی تھے ا نہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کویزید کی نامزدگی سے منع کرتے ہوئے اس کی تخت نشینی کی شدید مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے ان کا شمارموی حکومت کے زبردست ناقدین میں کیا جا نے لگاکچھ لوگوں نے جب حضرت عبداللہ بن زیبرؓ کی خلافت کااعلان کیاا س وقت وہ مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ میں پناہ گزین تھے عبد الملک بن مروان کو ان کی حکومت ختم کرنے کے لئے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جوعبداللہ بن زبیر کو اطاعت پر آمادہ کرے یا ان کا خاتمہ کر سکے۔ چنانچہ حجاج بن یوسف کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کو اس مہم کا انچارج بنایا گیا

مذاکرات ، دھونس اور لالچ سے بات نہ بنی تو اس نے مکہ مکرمہ کی ناکہ بندی کرکے زبردست غذائی بحران پیدا کر دیا پھر حرم کعبہ کا محاصرہ کرلیا جب شامی سپاہیوں نے خانہ کعبہ کی حرمت کے پیش ِ نظر اورعبد اللہ بن زبیرؓ کی اخلاقی اپیلوں کی وجہ سے حملہ کرنے سے انکارکردیاتو ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے حجاج بن یوسف نے بذات ِ خود وقتاً فوقتاً خود سنگباری شروع کردی اس نے سپاہیوںکو کہا ہم بھی مسلمان ہیںخانہ کعبہ کااحترام کرتے ہیں لیکن ’’باغیوں ‘‘ کو زیر کرنا چاہتے ہیں

کئی دن کے محاصرے اور بھوک پیاس سے تنگ حضرت عبداللہ بن زیبرؓ کے حامیوں کی ہمت جواب دینے لگی اس صورت ِ حال میں حجاج بن یوسف نے بھرپور حملہ کرکے خانہ کعبہ میں موجود لوگوںکو گرفتارکرلیا جس نے مزاحمت کی انہیں بڑی بے رحمی سے قتل کردیا جس کے بعد حجاج بن یوسف ایک فاتح کی طرح دندناتاہوا آیا اس نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو شہید کر ڈالا عوام پر دہشت ڈالنے کے لئے ان کی لاش کو کئی روز تک پھانسی پر لٹکائے رکھا اس’’ کا رنامے‘

‘ کا صلہ یہ ملاکہ حجاج بن یوسف کو حجاز کا گورنر بنا دیا گیا۔ پس پردہ محرکات یہ تھے حجاج بن یوسف اموی اقتدار کو اس مقدس سرزمین میں مستحکم کر نے کی ذمہ داری دی گئی تھی اس نے ہر اس شخص کو قتل کروا ڈالا جو اموی خلیفہ کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت کرسکتا تھا اس کے بے پناہ مظالم اور نفسیاتی دہشت نے عوام کے حوصلے پست کر دئیے اور اکثریت نے حکومت کو تسلیم کرلیا

مکہ فتح کرنے کے بعد اب مدینہ منورہ کی باری تھی وہاں سینکڑوں ہزاروں صحابہ کرام اجمعین کے اہل خانہ اور تابعین کی ایک کثیر تعداد مقیم تھی۔ حجاج بن یوسف نے اہل مدینہ کو جمع کرکے ایک زوردار تقریر کے دوران انہیں عبد الملک بن مروان کی بیعت کرکے ان کی حکومت کو ن تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا چاہا لیکن اہلیان ِمدینہ پراسرار طور خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے مخالفت کی نہ حمایت اس صورت ِ حال سے حجاج بن یوسف بہت پریشان ہوا حجاج بن یوسف نے غصے میں آگ بگولہ ہوکرکہا میںآپ لوگوںکو سوچنے کے لئے تین دنوںکی مہلت دیتاہوں تاکہ تم فیصلہ کرلو پھراس نے اپنے حامیوںکی مدد سے مخالفین کی فہرستیں بنالیں اور ہر اس سخص کو چن چن کر موت کے گھات اتاردیا جو حکومت کا مخالف ہوسکتاتھا

یا جس سے مزاحمت کی توقع کی جاسکتی تھی اس طرح تین دن کی مہلت کے باوجود قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر دیا بیشتر نے اپنی جان،مال اور آبرو بچانے کے لئے عبد الملک بن مروان کی بیعت کر لی۔ حجاج بن یوسف نے معززین کو یکے بعد دیگرے طلب کرناشروع کردیا جس نے حکومت کو تسلیم کرلیا اس کی جان بخش دی اور جس جس نے اموی حکومت پر تنقید کی اس کی گردن اڑا دی کئی ماہ تک ظلم و بربریت بازار گرم رہا اور نبی ٔ رحمت ﷺ کے شہر میںبے گناہوں کا خون بہتارہا۔ بالآخر یہ قیامت اس وقت ٹل گئی

جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر بناکر وہاں بھیج دیا گیا عراق میں بھی اس نے ظلم کی کئی مثالیں قائم کیں اس کے کئی سال بعد اس نے ایک عظیم تابعی اور زاہد و پارسا شخصیت حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک معمولی بات پرقتل کردیا یہ قتل اس کی زندگی کا آخری قتل ثابت ہوا ۔

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ایک دن مسجد میںممبر پر بیٹھے تھے انہوں نے کئی لوگوں کی موجودگی میں کہا “حجاج ایک ظالم شخص ہے”کسی مخبرنے حجاج بن یوسف کو خبرکردی یہ سن کر وہ آپے سے باہرہوگیا اور فوری انہیں دربار میں طلب کر کے پوچھا
’’ تم نے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟
آپ نے بڑی جرأت سے فرمایا وہی جو تم نے سناہے
’’ پھر بھی میں تمہاری زبان سے سننا پسند کروں گا حجاج بن یوسف نے کہا
’’میں نے کہا تھاحضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہا حجا ج ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج بن یوسف کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا کبھی کسی نے اس کے ساتھ اس انداز میں بات کرنے کی جرأت نہیں کی تھی

اس نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کے احکامات جاری کر دئیے۔ جب جلاد آپ کو قتل کیلئے دربار سے باہر لے کر جانے لگے توحضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ مسکرا دئیے۔ حجاج بن یوسف کو اس کی یہ حرکت انتہائی ناگوار گزری ا س نے پوچھا قتل کا حکم سن کرکیوں مسکرائے ہو ؟
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میںتیری بیوقوفی پر مسکرایا ہوں کہ اللہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اور تم سمجھ نہیں رہے۔
یہ سن کر حجاج بن یوسف نے جلادوںکو حکم دیا اسے میرے سامنے ذبح کر دو، جب جلادوں نے ان کے گلے پر خنجر رکھا تو حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ قبلہ کی طرف کرلیا اور بلند آوازمیں کہا اے اللہ میرا چہرہ تیری طرف ہے میں تیری رضا پر راضی ہوں یقینا حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔ حجاج بن یوسف نے یہ سن کرحکم دیا اسکا منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ پھر مسکرائے اور کہا اے اللہ میںجس طرف بھی اپنارخ کروں تو تو ہر جگہ موجود ہے

مشرق ہویا مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے۔ میری التجاہے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم ثابت ہو میں تمہارے نام پر قربان ہورہاہوں میرے پروردگار میر ی قربانی منظور فرما آمین حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ جملے ادا ہوئے اس کے ساتھ ہی آپ کا سر تن سے جدا کردیا گیاحضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے جسم سے اتنا خون نکلا کہ یوں لگ رہاتھا جیسے دربار میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہوں یہ دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص نے اپنا منہ آسمان کی طرف کیا اور زور سے بولا لگتاہے قربانی قبول ہوگئی ہے۔
رات حجاج بن یوسف سونے کے لئے بسترپر لیٹا تو باربار سعید بن جبیرکا چہرہ نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگا اس کے چہرے پر عجب آسودگی تھی پھروہ بڑی مشکل سے سویا پھر کچھ ہی دیر بعد اسے ایک خوفناک خواب دکھائی دیا اس نے دیکھا سعید بن جبیر محل کے ایک ستون کے ساتھ جکڑا ہوا ہے

کچھ ہی دیر بعدسعید بن جبیر ایک قدر آور شخص کی شکل اختیارکرگیا اس نے زور لگایا تو ستون ریت کی دیوار کی طرح زمین پر آگیاوہیں سے سعید بن جبیر نے حجاج کو پکڑنے کے لئے بازو بڑھایا بازو دراز ہوتا چلا گیایکایک وہ ایک ہولناک چیخ مارکر اٹھ بیٹھا اس کا پورا جسم سردی کے باوجود پسینے میں شرابور تھا اسے چاروں طرف سعید بن جبیر دکھائی دینے لگا پھر سوتے جاگتے ہر وقت اس کے خوابوں اور خیالوں میں سعید بن جبیر دکھائی دینے لگا کبھی وہ جلادوںکے ہمراہ مسکراتا نظرآتا کبھی فرش اور دیواروں پر خون ہی خون دکھاتی دیتا لگتا تھا سعید بن جبیر کے قتل کے بعد حجاج بن یوسف پر وحشت طاری ہو گئی تھی

، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج بن بوسف جب بھی سوتا حضرت سعیدؓ بن جبیر اس کے خواب میں آکر اسکا دامن پکڑ کر سوال کرتے کہ اے حجاج تو نے مجھے کیوں ناحق قتل کیا؟، میں نے تمہاراکیا بگاڑا تھا؟ حجاج کی گھگی بندھ جاتی وہ آنکھوںپر ہاتھ رکھ لیتا کبھی دونوں ہاتھوںسے سرکو تھام پر زور زور سے جھٹکا دینے لگتا اسی دوران حجاج بن یوسف کو ایک پراسرا ر بیماری لگ گئی طبیبوں نے اس بیماری کو زمہریری کانام دیا اس مرض میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی پھر اس کو اتنی سردی لگتی

کہ وہ کانپتا شروع کردیتا آگ سے بھری ایک درجن سے زائدآگ کی انگیٹھیاں گول دائرے میں اس کے پاس چاروں اطراف اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی مگر اسے مطلق احساس تک نہ ہوتا لیکن اس کی سردی کم نہ ہوتی، حکیموں طبیبوں نے تشخیص کی کہ حجاج بن بوسف کو پیٹ میں سرطان لاحق ہوگیاہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا

تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب و غریب نسل کے کیڑے چمٹے ہوئے تھے اور گوشت کے ٹکڑے سے اس قدر شدید بدبو آرہی تھی وہاں کھڑے ہونا محال تھا بدبو چہار جانب دور دور تک پھیل گئی درباریوں کے ساتھ ساتھ طبیب بھی بھا گ کھڑا ہوا ، حجاج اسے پکڑنے کے لئے اٹھا لیکن اوندھے منہ گرپڑا اس عالم میں عاجزی سے کہا تم بھی چلے گئے تو علاج کون کرے گا؟۔

۔ طبیب بولا تمہارا علاج کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ پراسرار بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے بس استغفارپڑھو، اللہ سے پناہ مانگوں شاید تمہیں اس مرض سے نجات مل جائے۔ حجاج بن یوسف جب حکیموں طبیبوں اور تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو بلوایا کر ان سے دعا کی درخواست کی۔آپ حجاج بن یوسف کی حالت ِزار دیکھ کر رو پڑے اور فرمایا میں نے تجھے بار ہا ظلم کرنے سے منع کیا مگر تو باز نہ آیا تونے اختیارات کے نشے میں اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بھی گریز نہ کیا

مخلوق ِ خدا کو ناحق ستایا اب کچھ نہیں ہوسکتا اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرو یہ نصیحت کرکے وہ چلے گئے ۔جب حجاج بن یوسف نے یہ محسوس کیا کہ اب اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے قریبی عزیزوں کو بلایا جو کئی بار بلانے کے باوجود آنے سے گریز کرتے رہے کچھ آئے تو کراہت کے ساتھ حجاج سے کافی دور کھڑے تماشائیوںکی طرح اس کی بے بسی دیکھتے رہے بے اختیارحجاج بن یوسف کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسے رہ رہ کر وہ وقت یاد آنے لگاجب اس کے ایک اشارے سے

لوگوںکی قسمت کا فیصلہ ہوجایا کرتا تھا بڑے بڑے سردار مجھے ملنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرتے وہ سوچنے لگا وقت بھی کتنا ظالم ہے کسی کو معاف نہیں کرتا میں لاچار اور بے بس بستر پرپڑا ہوا ہوں یقینا یہ میری شامت ِ اعمال ہے میں آج عبرت کی مثال بناہواہوں میں نے جتنا ظلم کیا ،جتنے گناہ کئے،جتنا بے گناہوںکو ستایا یہ اسی کا صلہ ہے حجاج بن یوسف کو رشتہ داروں نے دور سے پوچھا ہمیں کیوں بلایاہے؟۔

اس نے بے بسی سے سر کو جھٹکا اور انتہائی رقت آمیزلہجے میں کہنے لگا جب میں مر جاؤں تو میراجنازہ رات کو پڑھانا چپکے سے تدفین کردینا اور صبح کو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیونکہ اندیشہ ہے لوگ مرنے کے بعد قبر میں بھی میری لاش کو سکون نہیں رہنے دیںگے اس نے رشتہ داروں کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے کہ میری اس وصیت پر ضرور عمل کرنا رشتہ داروںنے وعدہ کرلیا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔

اگلے روز دوپہرکا عالم تھا کہ اچانک حجاج بن یوسف کے پیٹ میں شدید درد اٹھا وہ چارپائی پر ہی لوٹ پوٹ ہوگیاوہ پیٹ پکڑ کر بری طرح چیخ رہاتھا اسی دوران اس کا پیٹ پھٹ گیا اور گوشت کے لوتھڑے دور دور تک بکھرتے چلے گئے جن سے سخت بدبو آرہی تھی جس کی وجہ سے صفائی کرنے والے اس کی لاش کے پاس جانے سے کتراتے تھے وہ کئی گھنٹے یونہی بے گوروکفن پڑا رہا پھر کچھ لوگوںنے ہمت کرکے

اس کی لاش کو چادر میں باندھ دیا اوراسے چادر میں ہی غسل دے کر خاموشی سے دفن کردیا گیا شنیدہے حضرت سعیدؓ بن جبیرکے قتل کے 41ویں روز دنیا کا ظالم ترین شخص اپنے درد ناک انجام کوجا پہنچا جو عبرت ناک بھی ہے اور اذیت ناک بھی ۔ جو اس کا مظہر ہے کہ سدا بادشاہی صرف اللہ کی ہے بااختیار سے بے اختیار ہونے میں دیر نہیں لگتی ہر وقت قادرِ مطلق سے ڈرتے رہنا چاہیے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں