ملک بھر میں ایک طرف سیلاب نے قیامت برپا کررکھی ہے تو دوسری جانب بڑھتی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی 103

سیلاب میں دم توڑتی انسانیت

سیلاب میں دم توڑتی انسانیت

ملک کی مجموعی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، 22 کروڑ عوام کی زندگیاں تفکرات میں گری ہوئی ہیں،عوام کے سامنے کو ئی ایک مسئلہ نہیں، ہر طرف مسائل کا انبار کم ہو نے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے ،ایک طرف آئے روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا عذاب بنا رکھا ہے تو دوسری جانب سیلابی ریلیوں میں عام آدمی مر رہا ہے

،نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق سیلاب میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد ایک ہزار کے قریب جا پہنچی ہے ،جبکہ سوشل میڈیا کی رپورٹس کہیں بڑی تباہی دکھا رہی ہیں،این ڈی ایم اے سمیت امدادی کارروائیوں کے ذمہ دار جتنے بھی ادارے تھے، وہ کئی ہفتوں تک نہ صرف مفلوج رہے،

بلکہ اُن کی ساری کار گزاری کے پول کھل کر سب کے سامنے آرہے ہیں۔یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ حکومت اور سر کاری ادارے سیلاب آنے کے بعد ایک عر صہ تک بیٹھے تماشا دیکھتے رہے اور جب ادھا ملک ڈوب گیاتو حکومت سمیت اداروں کو امدادی اپریشن شروع کرنے کا خیال آیا ہے ،اس امدادی اپر یشن میں اتنی دیر بعد لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا،حکومت کو ہنگامی اقدامات کا اعلان بہت پہلے کر دینا چاہئے تھا

،کیونکہ اس طوفانی بارشوں اور سیلاب کا آغاز آج نہیں ہوا ،یہ سلسلہ کم و بیش ایک ماہ قبل شروع ہو گیا تھااورمحکمہ موسمیات نے غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کے خطرہ کی پیشگوئی بہت پہلے کر دی تھی، کیا حکمرانوں اور متعلقہ محکموں کی ذمہ داری نہیں تھی کہ عوام کے جانی و مالی نقصان سے بچانے کے لیے بروقت اقدامات کرتے، اگر ہمارے حکمران اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے

شہریوں کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے پیشگی انتظامات کر لیتے تو عوام کے جانی و مالی اور قومی املاک کے نقصان میں خاطر خواہ کمی ممکن بنائی جاسکتی تھی۔یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ حکومتی مشینری جب سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے اور انہیں سبق سکھانے میں مصروف تھی، اس وقت سیلابی ریلے بے سہارا اور افلاس زدہ عوام کے گھر گرا رہے تھے،سیاسی قیادت نے مصیبت کے وقت کبھی عوام کا ہاتھ نہیں پکڑا ہے،اُلٹا عوام کو ہی ہر موقع پر قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے

،ایک طرف عوام بڑھتی مہنگائی سے مر رہے ہیںتو دوسری جانب جان بوجھ کر سیلابی ریلیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے ،سیلاب میں سب کچھ بہہ رہا ہے اور حکومتی وزراء سیلاب پر بھی سیاست کر نے میں لگے ہو ئے ہیں ، یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے عوام مشتعل ہونے لگی ہے ،سیاسی قیادت سے لوگ کس درجہ مایوس ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو ہفتے قبل وزیر اعظم نے فلڈ ریلیف فنڈ کا آغاز کیا ہے ،لیکن اس فنڈ میں عوام عطیات جمع کرانے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم اور ان کے رفقا متعدد باراپیلیں کر چکے ہیں، لیکن عوام ان کی بات نہیں سن رہے ہیں،کیو نکہ حکومت اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہے ، حکومت جب اپنی ساکھ کھو بیٹھے توعوام اپنے مسائل کا حل خود نکالنے لگتے ہیں،سیلاب زدہ علاقوں میں جماعت اسلامی کی الخدمت اور دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکن انتھک کام کر رہے ہیں۔،یہ لوگ وسائل نہ ہونے کے باوجود قابل قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں،

جبکہ وہ ساری سیاسی جماعتیں کہ جنہیں عوام حکمرانی کا مینڈیٹ دیتے رہے ہیں، ان کی اکثریت کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے ،ایسا لگتا ہے کہ جیسے سیاسی جماعتوں کا کام ملک میں انتشار‘ انتقام اور بدنظمی کی ترویج ہی رہ گیا ہے۔
یہ وقت سیاسی محاذ آرائی کے بجائے اتحاد ویکجہتی کا ہے ،اس وقت جو بھی عوام کیلئے کام کرے گا،اس کو ہی عوام یاد رکھیں گے ،اس وقت جو سیاسی قیادت سیلاب زدگان کی مدد نہیں کررہے ،عوام کو بھی انہیں انتخابی سیاست میں مسترد کر دنیاچاہئے ، یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اتحادی قیادت بار بار عوام سے ہی چندے کی اپیل کررہے ہیں ،جبکہ یہ خود بڑے اثاثہ جات کے مالک اور مال دار ہیں،

یہ اپنے خزانوں کا وزن کچھ کم کیوں نہیں کرتے ہیں ،اس وقت انہیں چاہئے کہ عوام کی جانب دیکھنے کی بجائے آگے بڑھتے ہوئے سیلاب زدگان کی مدد کر یں ،لیکن یہ شائد ایسا نیک کام کبھی نہیں کریں گے ،ان کی لالچی نظریں تو سیلاب زدگا ن کو ملنے والی امداد پر لگی ہو ئی ہیں۔
یہ خون چوسنے والی جونکوں سے عوام کب نجات حاصل کر پائیں گے ،عوام بار ہا کوشش کر چکے ہیں ،مگر یہ ہر بار بھیس بدل کر عوام کا خون چوسنے آجاتے ہیں، یہ اتنے بے حس لوگ ہیں کہ انہیں اپنا مرنا یاد ہی نہیں ہے

،یہ ہر قدرتی آفت پر بھی سوداگری کرنے سے باز نہیں آتے ہیں ،یہ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں پر واویلا مچارہے ہیں تو دوسری جانب اندرونی اور بیرونی امداد پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں ،انہوں نے زلزلہ زدگان سے لے کر سیلاب زدگان تک مل بانٹ کرکھایا اور اس بار بھی کھائیں گے ،جبکہ عوام کے ہاتھ پہلے کچھ آیا نہ اس بار کچھ ہاتھ آئے گا ،عوام کی قسمت میں بے موت مرنا ہی لکھ دیا گیا ہے ،عوام کبھی بڑھتی مہنگائی اور کبھی سیلابی ریلوں سے مررہے ہیں،ہر روز بربریت اور ظلم کی ایک نئی داستان سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے، مگراشرافیہ پر آسمان گرتا ہے نہ زمین ہی پھٹتی ہے

،تاہم قدرتی آفات کے ذریعے مالک جھنجوڑ ضروررہا ہے کہ یہ سب راہے راست پر آجائیں،اگریہ سب اب بھی نہ سنبھلے تو پھر قیامت نے تو آنا ہے اور روز محشر نے بھی لگنا ہے کہ جب عام آدمی اور اشرافیہ ایک ہی حالت میں کھڑے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں