یہی حقیقت ہے 206

یہی حقیقت ہے

یہی حقیقت ہے

جمہور کی آواز
تحریر: ایم سرورصدیقی

کتنی عجیب بات ہے پاکستان میں اپنے اقتدارکو دوام دینے کیلئے ہمیشہ سیاستدان جمہوریت کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں بعینہٰ مذہبی رہنما اسلام کا نام لیتے رہتے ہیں بیشترکی منزل اسلام کی بجائے اسلام آبادہی ہوتی ہے ان حیلہ بازیوںمیں ہر حکمران نے قومی اداروںکو جیسے قومی فریضہ جانتے ہوئے کمزور سے کمزور ترکردیا اپوزیشن کے پیش ِ نظر بھی فقط اپنے مفادات کا حصول ہے

وہ کبھی سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،کبھی سیاسی بلیک میکنگ کے ذریعے اور کبھی مفاہمتی پالیسی کے تحت بہتی گنگا سے نہریں نکالتے رہے۔ اسے عجیب ترہی کہا جا سکتاہے کہ پاکستان میں ہونے والے ہر عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی اس کے نتائج کو ہمیشہ شکست خوردہ سیاستدانوں نے تسلیم کرنے سے انکارکیا ایوب خان سے لیکر میاں نواز شریف کے عہد تک دھونس، دھاندلی، جھرلو اورچمک کی کتنی ہی کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیںکبھی محترمہ فاطمہؒ جناح کوہرایا گیا ،

کبھی محترمہ بے نظیر بھٹونے انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز بلندکی۔۔۔ کبھی میاں نواز شریف سراپا احتجاج بن گئے۔۔۔ کبھی انہیں اقتدار میں لانے کیلئے ijiبنائی گئی اور کبھی مسلم لیگQکی حکومت بنانے کیلئے بھرپور ریاستی وسائل استعمال کئے گئے آج کے وزیرِ اعظم عمران خان بھی ماضی میںواویلا کرتے رہے ہیں کہ انہیں ہرانے کیلئے منظم دھاندلی کی گئی اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے عسکری وسول اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ الزامات کی زدمیں ہے کہ اس نے اپنے منظور ِ نظر سیاستدانوںکو برسرِ اقتدار لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔کہا جاتاہے ایک ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف الیکشن کروائے تھے

لیکن اس کے نتائج تسلیم ہی نہیں کئے گئے اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے فوجی ایکشن لینا مسئلہ کا حل سمجھ لیا گیا اگر جیتنے والی اکثریتی پارٹی کو اقتداردیدیا جاتا تو شاید پاکستان دو لخت ہی نہ ہوتا جب بھی عقل کے فیصلے جذبات سے کئے جائیں تو ایسا ہی رزلٹ نکلے گا۔۔۔یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ1973ء کے متفقہ دستورمیں فوجی ڈکٹیٹروں اورجمہوری حکمرانوںنے18ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑکررکھ دیا یہ بات طے ہے کہ آخری دو آئینی ترامیم عوامی مفادمیں ہرگزنہیں کی گئیں

بلکہ اس کا مقصد شاہانہ اختیارات حاصل کرنا اور ا نتخابی عمل پر اثراندازہونا تھا تاکہ حسب ِ منشاء حکومتوںکی تشکیل کی جا سکے سوچنے کی بات ہے تیسری باروزیر ِ اعظم بننا،حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیف الیکشن کمشنرکا تقرر،الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف جسٹس، آرمی چیف،نگران حکومتوںکا قیام یاچیئرمین نیب کی تقرری سے عام آدمی کیا مفادوابستہ ہے ان کو اس سارے معاملات سے کیا سروکار؟ یہ اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیںحقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے حکمرانوںنے 1973ء کے متفقہ دستورمیںتمام ترامیم اپنے مخصوص سیاسی مفادات کیلئے کیں یہ گیم اب تلک جاری ہے

کسی کا مطمع ٔ نظرعوامی بھلائی نہیں اس کے نتیجہ میں حکمرانوںنے دولت کے انبار اکٹھے کرلئے اور عوام روٹی کے لقمے لقمے کو ترس رہے ہیںیہی اس ملک کا سب سے بڑاالمیہ ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ عام آدمی کیلئے سوچ سکے آج ہمارا یہ حال ہے کہ اس قوم کا کوئی لیڈر ہی نہیں ہے حقیقی قیادت سے محروم۔۔۔پاکستانیوںکو ایک ہجوم ِ نابالغاں کہا جا سکتاہے۔۔یہی محرومیاںفوجی ڈکٹیٹروںکی آمدکاسبب بنتی ہیں جب سول قیادت ویژن ،صلاحیت اور ذہانت سے عاری ہو جائے تو ایسے ہی حالات جنم لیتے ہیں

قائد ِ اعظمؒ نے جب پاکستان بنایا تو انہیں بھرپور عوامی تائیدحاصل تھی کانگریسی و احراری مولویوںکی لاکھ مخالفتوں کے باوجود پاکستان ایک حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پرابھراجبکہ بعدمیں آنے والے حکمران بتدریج عوامی حمایت اور تائیدسے محروم ہوتے چلے گئے اورعسکری وسول اسٹیبلشمنٹ اور شخصیات مضبوط سے مضبوط۔ادارے کمزور۔۔یہاں عوام کے ساتھ ایک اور’’ واردات ’’ بھی کی گئی اشرافیہ پر مشتمل سیاستدانوں،بیوروکریسی، ججز،فوجی افسران،سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے آپس میںرشتہ داریاں کرلیں۔۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو،حکمران کوئی بھی ہو اشرافیہ کو ۔

۔کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا کوئی نہ کوئی عزیز، رشتہ دار یادوست مسلسل حکومت میں رہتاہے۔۔دعوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں عمران خان اور طاہرالقادری مسلسل کہتے رہے ہیں وہ موروثی سیاست کے خلاف جدوجہدکررہے ہیں ، تبدیلی ہمارامشن ہے،موجودہ سسٹم بدلیں گے لیکن بغورجائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا ان کا اس سلسلہ میں عمران خان کا کوئی ہوم ورک نہیں تھا البتہ ڈاکٹرطاہرالقادری تو استحصالی نظام کا متبادل دینے کا دعویٰ کرتے رہے اس وقت ملک کو بدترین مہنگائی ، لوڈشیڈنگ،

دہشت گردی،کرپشن،بیروزگاری اور غربت جیسے جو چیلنجز درپیش ہیں اس کے بارے میں PTI حکومت کی حکمت ِ عملی بھی واضح نہیں۔۔۔ ماضی کے تمام حکمرانوںک اور اسٹیک ہولڈروںکو موجودہ سسٹم ہی سپورٹ کرتاہے اسی کی بقاء میں ان کی جان ہے مسلم لیگ ن JUI،اے این پی ،پیپلزپارٹی، بیشترمذہبی جماعتوں اور سابقہ صدر آصف علی زرداری سمیت کئی قومی رہنما موجودہ نظام کو بچانے کیلئے آخری حدتک جا سکتے ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تین تین بار اقتدارمیں آچکی ہیں لیکن عوام کی حالت پہلے سے بھی ابترہو چکی ہے سیاستدان نسل در نسل اقتدار اور وسائل پرقابض چلے آرہے

ہیںحکمران خود تسلیم کرتے ہیں کہ پولیس کی ایک بڑی تعداد VIPکے پروٹوکول پرمامورہے یعنی جس ادارے کو عوام کی جان ومال کا تحفظ اورقانون کی حکمرانی کیلئے کام کرنا چاہیے وہ نان پروفیشنل کاموںمیں الجھ کررہ گیا ہے اسی وجہ سے پولیس اپنی ذمہ داریوںمیں ناکام ہو جاتی ہے تو امن و امان قائم رکھنے کیلئے رینجرزکوطلب کرلیا جاتاہے بات یہیںپر ختم نہیں ہو تی ایک جمہوری حکومت میں شہروں کو فوج اور رینجرز کے حوالے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کیلئے ایسا فیصلہ انتہائی ناعاقبت اندیشانہ ہوتا ہے اس کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے

کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کا پاور سٹریکچر اتنا سٹرونگ ہے کہ اس نے آکٹوپس کی طرح ہرچیزکو جکڑرکھاہے انہیں ڈرہے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی تو ان کی سیاست، اقتدار اور مراعات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے حکمران اب بھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے حقیقی اقدامات کریںتو ان کی ساکھ بہترہونے کی امیدکی جا سکتی ہے سیاستدانوں کو اس بات کاادراک ہونا چاہیے کہ موجود استحصالی نظام کے خلاف مربوط حکمت ِ عملی اورٹھوس منصوبہ بندی کے بغیربنیادی تبدیلی لائی ہی نہیں جا سکتی

اس کیلئے اشرافیہ کا نیٹ ورک توڑنا ہوگا نظام بدلنے کی خواہش رکھنے والے عمران خان اور طاہرالقادری سمیت دیگر قومی اور مذہبی رہنمائوں کو شاید اندازہ نہیں اشرافیہ کس قدر طاقتور ہے؟ اس لئے غلطی کوئی گنجائش نہیں ہے سانپ اور سیڑھی کا کھیل شروع ہوگیاہے د عوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عملاً کچھ نہ کیا گیا توسب کچھ بے کارہو جائے گا اس لحاظ سے موجودہ سیاسی حالات میاں عمران خان کو ایک سخت امتحان درپیش ہے جو تبدلی ک ا دعوے کرکے اقتدار میں آئے ہیں

اب تب تو تبدلی کی فلم سپرفلاپ ثابت ہوئی ہے سول انتظامیہ اور جمہوری حکومت ناکام ہوگئی ہے یہ جمہوریت کی بدقسمتی ہوگی ۔اپوزیشن جماعتوںکااس بات کا ادراک کرناہوگا کہ محاذآرائی،جلائو گھیرائو سے حالات خراب ہو سکتے ہیں جس کا ملک ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس سے خانہ جنگی جیسی کیفیت پیداہونے کااحتمال ہے مولانا فضل الرحمن اور میاںشہبازشریف کو اس بات کااحساس کرناہوگا کہ ہرقیمت پر اقتدارکی خواہش میں دن کے پہلے پہر اپنے جلسوںکو دیکھ کر یہ خیال کریں کہ بڑا نظر آ نے والا سایہ شام کو چھوٹا ہوجاتاہے یہی حقیقت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں