نقاش نائطی 132

علوم قرآن وسنت کی روشنی میں،علم عصر حاضر کا حصول، کیا وقت کی ضرورت نہیں ہے؟

علوم قرآن وسنت کی روشنی میں،علم عصر حاضر کا حصول، کیا وقت کی ضرورت نہیں ہے؟

نقاش نائطی
+966504960485

ہمارے بھتیجے کے، طفل مکتب بیٹے آبان سمیر شاہ بندری کے منصب حافظ قرآن پر متمکنیت انہیں مبارک ہوبادشاہ ھند اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ نے، اپنے امور سلطنت ھند کی ریشہ دوانیوں کے چلتے،اپنے والد محترم، وقت کے شہنشاہ ھند، شاہ جہاں کو، اپنے محل میں قید کر رکھا ہوا تھا۔ لیکن ایک سچے پکے مسلمان ہونے کے ناطے ایک بیٹے کی حیثیت سے اپنے باپ کی دیکھ بھال، خیر و عافیت کی فکر رکھے ہوئے تھے۔ ایک باپ ہونے کے ناطے اپنے بیٹےکے حکومتی فیصلہ کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے بھی، سونے کے پنجرے والی قید تو قید ہی ہوتی ہے،اس لئے بیٹے کے ہاتھوں قید کی وجہ سے، شہنشاہ شاہ جہاں اپنے بیٹے شہنشاہ وقت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ سے خفا خفا سے رہتے تھے۔ بیٹے سے اپنی خفگی باوجود، اسکے بیٹے، یعنے اپنے پوتوں سے ملنے اور ان کے ساتھ کھیلتے وقت بتانے میں، انہیں بڑا مزا آتا تھا

۔ایک دن جب انکے پوتے،ان سے ملاقات کے لئے آئے تو ہاتھ میں میٹھا ساتھ لئے آئے اور بڑے ہی چاہ سے، دادا جان کو اپنے حافظ قرآن کے منصب اعلی پر متمکن ہونے کی خوشخبری سنائی۔ شاہ جہاں پوتوں کے حافظ قرآن بننے کی خبر سن کر خوش تو بہت ہوئے، لیکن اپنے قید ہونے کی وجہ بیٹے اورنگ زیب سے اپنی خفگی کو چھپا نہ سکے اور پوتوں سے اتنا کہا تمہارے حافظ قرآن بننے سے میرا کیا فائیدہ؟ وہ تو میرا دشمن فائدے میں رہا،

واپسی پر اورنگزیب نے بچوں کی زبابی نانا سے انکی ملاقات کی تفصیل جاننی چاہی تو اپنے بیٹوں کے منھ پر کہی، شاہجہاں کے اس بات کے مطلب و کرب کو وہ سمجھ چکےتھے۔ اس لئے، اس وقت تو اورنگ زیب علیہ الرحمہ نے کچھ نہ کہا بلکہ کچھ عرصہ بعد اپنے بیٹوں کو انکے نانا کے پاس بھیج کر یہ پیغام ان تک پہنچوادیا کہ انکا بیٹا (اورنگ زیب) بھی، حافظ قرآن کے منصب تمکنت پر متمکن ہوچکا ہے
کم سنی میں حفظ قرآن جتنا آسان عمل ہوتا ہے، کبار سنی میں ذہن کی پختگی اور دیگر عوامل میں الجھے ذہن کی وجہ سے، حافظ قرآن بننا ناممکن نہ صحیح مشکل تر ضرور ہوتا ہے اور وہ بھی، باپ دادا سے ملی جاگیر، سلطنت دہلی آگرہ کو اپنی شہنشائیت و جوانی کے پورے 50 سال میں سے دو تہائی سے زیادہ عمر، گھوڑے کی پیٹھ پر بتائے،

شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب تک، مختلف راجوں راجاؤں نوابوں سلطانوں کی ملکیت میں بٹےبھارت کی مختلف مملکتوں سلطتنوں کو اپنی مغل شہنشاہیت کا حصہ بناتے بناتے،اب کے بنگلہ دیش پاکستان افغانستان برما سری لنکا بھوٹان نیپال مالدیپ پر مشتمل عالیشان اکھنڈ بھارت کے معمار شہنشاہ ھند ہونے کے ناطے، اور اپنی دور رس نگاہ اکھنڈ بھارت کو عالم کا تجارتی مرکز بنائے، فی زمانہ معشیتی ماپ ڈنڈ،اس گئے

گزرے زمانے میں،اپنی 27 فیصد جی ڈی پی کے ساتھ عالم کی مضبوط تر معشیت سونے کی چڑیا مشہور بھارت کو بناتے ہوئے بھی، نیز حکومتی ریشہ دوائیوں کی اپنی الگ مصروفیت باوجود، اس کبار سنی میں، حافظ قرآن بننا کوئی آسان کام نہ تھا۔لیکن شہنشاء ھند اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ چونکہ اسلامی علوم پر دسترس رکھتے تھے، اس لئے مندرجہ ذیل آحادیث کی روشنی میں، اپنے والد کے اپنے پوتے کے منھ پر کہے جملے کے کرب کو سمجھتے تھے۔ اس لئے اپنی کبار سنی و ذہنی پختگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنے والد محترم کی، ان کہی حافظ قرآن بننے کی انکی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر، اپنی سلطنتی تمام تر ذمہ داریوں و مصروفیت باوجود، محنت و جانفشانی سے خود حافظ قرآن بننے کے بعد، آپنے والد محترم تک انکے پوتوں، یعنے اپنے بیٹوں کی معرفت سے، اپنے حافظ قرآن بننے کی خوشخبری پہنچائی تھی

*مفہوم حدیث مبارک*
*اللہ رب العزت حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، تو والدین کہیں گے،یا پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا، تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی، اس کے عوض، تمہیں دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا میں بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے،*
طبرانی نے اسے معجم الاوسط: (6/51)

*حافظ قرآن کے والدین کو دو لباس پہنائے جائیں گے جن کی قیمت دنیا وما فیہا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ حافظ قرآن کے والدین نے اپنے بچے کی خوب محنت کے ساتھ پرورش کی ہے اور اسے تعلیم دلوائی ہے، چاہے حافظ قرآن کے والدین ان پڑھ ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالی پھر بھی ان کی عزت افزائی فرمائے گا*
*آج ہماری بھانجی کے جوان سال دو جڑواں بیٹے، یعقوب و ایوب کے علوم عصر حاضر کے شہشوار بنتے بنتے، حافظ قرآن کے منصب اعلی پر انکے متمکن ہونے کی خبر نے،شہنشاہ ھند اورنگ زیب علیہ الرحمہ کے اپنے والد محترم کی ان کہی خواہش کو پورا کرنے، اپنی شہنشائیت کی تمام تر ذمہ داری پورہ کرتے ہوئے بھی، کباڑ سنی میں حافظ قرآن بننے کے واقعہ کو یاد دلا گیا ہے*

*آج کے ہم مسلمان، “طلب العلمی فریضہ علی کل مسلمین” کے مفہوم کو، اپنے اسلاف کی غلط رہنمائی کے چلتے، علوم عصر حاضر اور علوم اسلامی کو جدآ جدا سمجھتے ہوئے، کسی ایک کو حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہوئے، دعویداری عالم اسلامی کی چاہ و تڑپ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جبکہ انسانی زندگی کے لئے ضروری حصول علوم قرآن و سنت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہوتے ہوئے بھی، اللہ کے رسول ﷺ پر اتاری گئی، پہلی صورة قرآنی کی دوسری آیت ،حکم ﺍﻟﻠّﻪﷻ، “خلق الانسان من علق”، “پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے” جس کی گتھی اس حکم قرآنی سےہزار بارہ سو سال بعد، وقت کے سائینس دانوں نے جو صحیح ثابت کر اس گتھی کو حل کیا ہے، کیا ہمارے پروردگار کی منشاء علوم قرآنی کی روشنی میں، ارض و سماوات بحر و جبل، مخلوقات ارض و بحر کے علاوہ خلقت شمس و قمر و نجوم پر تدبر و تفکر کرتے ہوئے، طلب العلم فریضہ علی کل مسلمین، علوم عصر حاضر کو ہی حاصل کرنا،ہم مسلمانوں پر واجب ہونے کی دلیل کے زمرے میں لیا جانا کیا نہیں چاہئیے تھا؟*

*آج کے ہم مسلمان، آپنے اسلاف کے آٹھ سو، ہزار سالا عالم پر، حکمرانی کے سنہرے دور پر نظرالطاف رکھتے ہوئے، ضروری حد تک علوم قرآن وسنت کو حاصل کرتے ہوئے، علوم عصر حاضر والے، علاج مہلک وبا متعدی کورونا جیسی ان سلجھی گتھیوں کو، عصری علوم کے تقاضوں کے تحت، تدبر و تفکر کر حل کرنا،اپنے لئے فرض عین تصور کرتے ہوئے، اس سمت اپنی پیش رفت سے، ایک مرتبہ پھر حکمرانی عالم کی دعویداری کی تڑپ کو، آگے رواں دواں کرنا کیا کیا ہم ،اپنے لئے ضرورت قرار دے نہیں سکتے ہیں؟ وما علینا الا البلاغ*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں