133

آئی پی پیز کے خلاف پوری قوم کر کھڑا ہونا ہوگا

آئی پی پیز کے خلاف پوری قوم کر کھڑا ہونا ہوگا

قصور(مقصود انجم کمبوہ بیوروچیف قصور)آئی پی پیز کے خلاف پوری قوم کر کھڑا ہونا ہوگا!پوری دنیا میں سب سے مہنگی بجلی پاکستانی آئی پی پیز بناتی ہیں۔یہ آئی پی پیز (بجلی بنانے والے نجی ادارے) پاکستان کو تقریباً 12 سنٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی بنا کر دیتے ہیں۔ جب کہ بنگلہ دیش اور انڈیا میں 6 سے 8 سنٹ تک بنتی ہے۔16 آئی پی پیز نے بےنظیر کے

دور میں کل 50 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔ بدلے میں اب تک یہ ساری کمپنیاں سینکڑوں ارب روپے کما چکی ہیں۔ خالص منافع کے علاوہ یہ کمپنیاں جو گھپلے کرتی ہیں وہ الگ ہیں۔انکوائری رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں قومی خزانے کو صرف تیرہ سال میں 4802 ارب روپے کا نقصان پہنچا چکی ہیں۔
اس رقم میں دیا میر بھاشا ڈیم جیسے تین بڑے ڈیم بن سکتے ہیں۔1900 ارب روپے کا ہوشربا گردشی قرضہ بھی انہی آئی پی پیز کا تحفہ ہے۔ جو الگ سے ریاست کے سر پر ناقابل برداشت بوجھ ہے۔ائی پی پیز کی لانچنگ کے کچھ ہی عرصہ بعد معلوم ہوا کہ کئی کمپنیاں درحقیقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ہی ہیں

اور ان کے فرنٹ مین ان کو چلا رہے ہیں۔ خاص طور پر میاں منشاء کو نواز شریف کا فرنٹ مین کہا جاتا ہے جس کی آئی پی پیز پاکستان کو جھونک کی طرح چمٹی ہوئی ہیں۔اسی مفاد کی وجہ سے ان آئی پی پیز سے عجیب و غریب معاہدے کیے گئے ہیں۔ چاہے بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، مہنگی بنائیں

یا سستی بنائیں حکومت پاکستان ان کو عوام کا خون نچوڑ کر ادائیگی کرتی رہے گی۔یہی مفاد تھا جس کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے پاکستان میں کوئی ڈیم بھی نہیں بننے دیا۔اصف زرداری کا مشہور زمانہ 65 ملین ڈالر کا سوئس کرپشن کیس بھی آئی پی پیز سے وصول کی گئی کمیشن کا تھا

جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے جرم ثابت ہونے کے باؤجود آصف زرداری کو صاف بچا لیا تھا۔پاکستان کے بجٹ کے خسارے کی سب سے بڑی وجہ یہی آئی پی پیز ہیں۔
انہی آئی پی پیز کی وجہ سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا وہ طوفان آیا جس کی وجہ سے ہماری بہت سی انڈسٹریاں بنگلہ دیش چلی گئیں۔
نتیجے میں ہماری برآمدات کم ہوگئیں اور درآمدات بڑھ گئیں۔ بےروزگاری اور مہنگائی کا طوفان آیا۔یہ آئی پی پیز محض سفید ہاتھی نہیں ہیں بلکہ خون آشام جھونکیں ہیں جو اس ریاست کو بری طرح سے چمٹی ہوئی ہیں۔

پاکستان میں معیشت کا بحران تب تک نہیں نمٹ سکتا جب تک توانائی کا بحران ختم نہیں ہوتا۔توانائی کا بحران تب ہی ختم ہوسکتا ہے جب پاکستان آئی پی پیز نامی ان خون آشام جھونکوں سے اپنی جان چھڑائے یا اپنی مرضی کی شرائط پر نئے معاہدات کرے۔خیبر پختونخواہ خاص طور پر فاٹا،

بلوچستان، سکھر اور کراچی میں بلوں کی وصولی یقینی بنائے۔اور پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر توجہ دے۔عمران خان حکومت نے ان کے خلاف انکوائری کروائی ہے اور وہ رپورٹ پبلک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔آئی پی پیز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی کرپشن اور لوٹ مار جاری رکھنے

اور ممکنہ کاروائی سے بچنے کے لیے پاکستان کی عدالتوں کا سہارا لینگی۔ اس سلسلے میں وہ بہت بڑے اور مہنگے وکیل کر چکی ہیں جو وکلاء بار کو کنٹرول کرتے ہیں جن کے سامنے کوئی جج دم مارنے کی جرات نہیں کرتا۔عدلیہ دہشت گردوں کو بچا لیتی ہے، غداروں کو بچا لیتی ہے،

گستاخوں کو بچا لیتی ہے، کرپشن کرنے والوں کو بچا لیتی ہے، اگر آئی پی پیز کے معاملے میں بھی عدلیہ کا یہی طرز عمل رہا تو ایک دن قوم کا ان عدالتوں پر بچا کچھا اعتماد بھی اٹھ جائے گا،




اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں