125

نگاہ حقیقت

نگاہ حقیقت

تحریر ۔ خالد حسین
ملک بھر میں سردیاںعروج پر پہنچ چکی ہیں اور برف باری کا سلسلہ بھی جاری ہے خاص طور پر ملک کے بالائی علاقے ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور بلوچستان کے بالائی علاقوں سمیت ملک کے دیگر علاقوں ، مری ، گلیات، کشمیر میں بھی برف باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے

ایسے حالات میں سیاحوں کی حفاظت اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تو دوسری طرف سیاحوں کو بھی اپنے لیے حفاظتی اقدمات کویقینی بنانا ہوگا ملک بھر میں سردیوں کی آمد اور برف باری کے ساتھ ہی ہرسال سیاحوں ، مسافروں اور دوردراز علاقوں کے باسیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ملک میںگزشتہ کئی برسوں سے برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے سیاحت کے فروغ کے لیے لاتعداد منصوبے تو ضرور بنائے اور کھربوں روپے کی لاگت سے یہاں مختلف سیاحتی منصوبوں کومکمل کرنے کے دعوئے بھی کئے

جوکہ سیاحت کی ترقی اور یہاں کے مکینوں کی بہبود اور ذریعہ معاش کے لیے ایک خوش آئند اقدام تصور کیا جاتا ہے مگرہر سال موسم سرما میں کئی کئی فٹ پڑنے والی برف کے بعد سارے کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور شہری اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں سیاحوں اور مسافروں سمیت دور دراز علاقوں کے رہائشیوں کے لیے سڑکیں بلاک ہوجاتی ہیں سخت سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے

سیاح اور مسافر تو اپنے گھروں کو واپسی کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیںجب کہ دیہی علاقوں کے باسیوں کو کئی کئی ماہ اذیت ناک زندگی سے گزرنا پڑتا ہے گزشتہ سال جنوری کو ملک کے دیگر بالائی علاقوں کی طرح مری اور گلیات میں پڑنے والی برف باری نے 10 سال کا ریکارڈ توڑ ڈالا تھا اور صرف مری میں ابتدائی 24 گھنٹوں میں 17 انچ سے زائد برف باری ریکارڈ کی گئی اس برف باری نے جہاں ملک بھر سے سیاحوں کو دلکش نظارے دیکھنے کے لیے مری کی طرف آنے پر مجبور کیا وہاں 08 جنوری 2022 ء کوسردی سے ٹھٹھر کر اور آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے اندرہی 24 سے زائد سیاح زندگی کی بازی ہار گئے تھے سیاحوں کی اندوہناک اموات سے پورا ملک سوگوار ہوگیا تھا

جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں اگر چہ اس سانحہ کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر حکومتی سطح پر جس بات پر زیادہ زور دیا جارہاہے وہ گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کا مری میں داخلہ پارکنگ کی جگہ کا کم پڑجانا اور سیاحوں کی طرف سے اپنے لیے سردی سے بچاو کے انتظامات کا نہ ہونا تھا مگر وجوہات جو بھی ہوں انتظامیہ کی کارکردگی کو نظر انداز کر نا مناسب نہیں ہوگا محکمہ موسمیات کی جانب سے برف باری کی شدت سے قبل وارننگ الرٹ جاری ہونے کے باوجود بھی انتظامیہ کی طرف سے سست روی اور غفلت کا مظاہر ہ ایسے سانحات کا ایک پہلو ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس قدر مشہور اور پُر ہجوم سیاحتی مقام کی سڑکوں سے برف ہٹانے کے لیے بھاری مشنری کا نہ ہونا جب کہ اس مقام پر ہرسال کئی کئی فٹ برف باری ہوتی ہے،

تو دوسری طرف سیاحوں کی جانب سے سڑک کے درمیان اپنی گاڑیوں کو بے ہنگم چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے کے لیے چلے جانا بھی امدادی کارروائیوں اور سڑک کلیئر کرنے میں رکاوٹوں کی ایک بڑی وجہ دکھائی دیتی ہے، ملکہ کوہسار مری میں سیاحوں کی سہولت کے لیے کم وبیش 500 چھوٹے بڑے ہوٹلز اور اقامت گاہیں ہیں مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ اُن میں سہولیات کا فقدان رہا ہے ان ہوٹلوں اور اقامت گاہوں میں بجلی ، پانی اور بیت الخلاء جیسی اہم ضرورتوں کا فقدان ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے

ہوٹلوں اور اقامت گاہوں میں جگہ کم پڑجاتی ہے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے من مانے کرایے طلب کئے جاتے ہیں اس برف باری کے دوران گزشتہ سال الخراش سانحہ کے وقت ایک کمرے کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزار روپے ، گیس کے سلنڈر کا کرایہ فی گھنٹہ ہزار روپے ، فی انڈہ پانچ سو روپے اور اللہ جانے کس بے دردی سے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں وصول کی گئیں ہیں جس کا برملا اظہار سیاحوں نے کیا تھا مگر کبھی بھی اس سنگین صورتحال کا حکومتی سطح پر نوٹس نہیں لیا گیااور اگر ایسے دلخراش سانحات کے بعد بھی حکومت نے اس بے قاعدگی اور لوٹ مار کا نوٹس نہ لیا تو کم ازکم ملکہ کوہسار مری جسے اہم اور دنیابھرمیں مشہورسیاحتی مقام میں سیاحت کا فروغ خطرناک حد تک گراوٹ کا شکار ہوگا

، ایک محتاط اندازے کے مطابق مری میں 32 ہزار گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش ہے جب کہ برف باری کا نظارہ کرنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میںگاڑیوں کا مری میں داخل ہونا کسی سونامی سے کم نہیں ہوتا اگرچہ گزشتہ سال مری سانحہ کی مکمل رپورٹ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی گئی تھی اس پورٹ کی ابتدائی معلومات کے مطابق ایک لاکھ گاڑیوں میں سے صرف 12 ہزار گاڑیاں واپس آئیں تھیں جب کہ باقی سب پھنس گئیں تھیں

اور ضرورت سے زیادہ گاڑیوں کے دباو کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنا ممکن نہ رہا ہوٹلز اور اقامت گاہوں میں سہولیات کی کمی اور کئی گنا اضافہ کے ساتھ کرایوں کو دیکھتے ہوئے سیاحوں نے اپنی گاڑیوں ہی میں ہیٹر چلا کر رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا، افسوسناک امر یہ تھا کہ جس گاڑی کو یہ محفوظ سمجھ رہے تھے دراصل وہی موت کا تابوت ثابت ہوئی برف کے باعث گاڑیوں کے سائلنسر یعنی گیس کا ایگزٹ سوراخ بند ہونے سے کاربن مونو آگسائیڈ جوکہ بو کے بغیر گیس ہوتی ہے

اور وہ اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ چند منٹوں میں انسان کو موت کی نیند سلا دیتی ہے یہی گیس اکثر سیاحوں کی موت کا سبب بنتی ہے ۔قارئین ! قدرتی آفات سے نمٹنے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے لیے شہریوں میں شعور اُجاگر کرنابہت ضروری ہوگیا ہے مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ایسے سرد مقامات پر جانے کے لیے سیاحوں کو اُس مقام کے بارے میں علم ہونا چاہئے

اگر نہیں تو کسی ایسے فرد سے معلومات لے لی جائیں جو پہلے اُس مقام پر جا چکا ہو یا پھر سیاحت کا مطالعہ کرلیا جائے سیاح کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اُن کی ضرورت کی کون کو ن سی چیزیں اہم ہیں اگر چھوٹے بچے ساتھ ہیں تو اُن کے لیے کیا کیا لوازمات ضروری ہیں مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، سیاحت کے شوقین افراد کو گاڑیوں میں اندھن ، خوراک ، پانی ، موسم کے اعتبار سے گرم کپڑے ،روشنی ، آگ جلانے کے لوازمات وغیرہ سے متعلق آگاہی ایسے سانحات سے بچاو میں مددگار ثابت ہوتی ہے

سیاحوں کو محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری وارننگ الرٹ کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے مگر اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی ،08 جنوری 2022 ء کو جب مری میں الخراش سانحہ کے متاثرین کی بحالی کا کام جاری تھا تو اُس وقت بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد مری کا رخ کرچکی تھی اور اُس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ (سابق) شیخ رشید ایک نجی ٹی وی چینل پر چیخ چیخ کر سیاحوں سے اپیل کررہے تھے

کہ وہ مری کی طرف نہ جائیں مگر سیاح پولیس کے روکنے کے باوجود بھی نہیں رک رہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو امددی کارروئیوں میں خلل پیدا ہورہا ہے تو دوسری طرف بند سڑکیں کھولنے میں دشواری پیش آرہی ہے اور آخر کار مزید سیاحوں کو مری کی طرف جانے سے روکنے کے لیے سابقہ حکومت کو رینجرز تعینات کرنا پڑی تھی ، ایک طرف سیاحوں کی اموات اور دوسری طرف مزید شہریوں کا اس طرح خطراب سے کھیلتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کی کوشش کرنا ہمارے معاشرے کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے

اگرچہ یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ دنیا بھر کی طرح ہم بھی کورونا جیسے خطرناک اور موذی وائرس کا شکاررہے ہیں اور طویل عرصہ سیاحتی مقامات پر مختلف پابندیوں کے پیش نظر محدود زندگی گزارنے پر مجبوررہے ہیں اور ایک گھٹن کی کیفیت میں مبتلا ء رہے اور اب جب کہ معاشرہ الحمد اللہ ان پابندیوں سے آزاد ہوچکا ہے تو ہر فرد چاہتا ہے کہ کھلی فضاء میں آزادانہ سانس لے اور یہی وجہ ہے کہ شہری اپنی مرضی کے مطابق تفریح چاہتے ہیں جس کے لیے وہ اپنا سرمایہ بھی لٹانے کو تیار رہتے ہیں آج ملک بھر کے تفریحی مقامات آباد ہیں اور شہری اپنی زندگی اور قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔
قارئین ! اس میں کوئی شک نہیں کہ سردیوں میں رونما ہونے والے ایسے اندہوناک واقعات اور اموات ملک کے سیاحتی مقامات اور متعلقہ محکموںکی کارکردگیی پر ایک سوالیہ نشان ہے اوریہ سانحات طویل عرصہ شہریوں، سیاحوں کے دل ودماغ پر نقش رہیں گے تو دوسری طرف حکومت کو ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات اُٹھانا ہوں گے

اور سیاحت کے فروغ کے لیے جامع منصوبوں پر عمل کرنا ہو گا ایسے مقامات کی بہتری اور خستہ حالی سمیت سیاحوں کو فراہم کردہ سہولیات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنا ہوگا تاکہ سیاحت محفوظ بن سکے اور شہری کسی بھی خوف و خطر کے بغیر قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہوسکیں اور موسم سرما میں ملک کے بالائی و دیہی علاقوں سمیت سڑکوں پر سفر کرنے والے شہریوں اور مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہو گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں