132

رات کے آخری پہر اٹھ بیٹھا اور کاغذ قلم ایک بارنئے جنون نئے جذبے کے ساتھ سنھبال لیا ،کاغذ کب سے لپیٹ کے رکھ دیئے تھے

رات کے آخری پہر اٹھ بیٹھا اور کاغذ قلم ایک بارنئے جنون نئے جذبے کے ساتھ سنھبال لیا ،کاغذ کب سے لپیٹ کے رکھ دیئے تھے

اس خوف سے کہ الفاظ بے توقیر ہو چکے ،سیاہ باطن جہاں ہوں وہاں کاغذوں پہ سیاہی اتارنا بے معنی ہو جاتا ہے ،

مگر یہ میرا خیال غلط نکلا ،ابھی معاشرے میں ہلکی سے رمق باقی ہے ، بلکتے بدن میں لہو کا قطرہ باقی ہے ،

قصہ مختصر بڑے عرصے کے بعد ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک بریکنگ کا پھٹہ چلا ،سمجھ گیا کہ کوئی نیا فتور ،کوئی نیا جھوٹ ،کوئی نیا فتنہ پھٹنے کو ہے ،

یار باش لوگوں نے میڈیا کے حوالے سے اتنا زہر بھر دیا ہے کہ بسا اوقات اپنی سو فیصد سچی خبر بارے بھی شکوک و شہبات کھڑے ہو جاتے ہیں ،

اندھوں کے شہر میں ہم آئینے بیچنے کا جو کاروبار کرتے ہیں،الغرض بریکنگ کے پھٹے میں سائیوال کے جی ٹی روڈ پہ دہشت گردی کی جنگ میں سیسہ پلائی دیوار سی ٹی ڈی کی کاروائی بارے بتایا جا رہا تھا ،

رپورٹر کی رپورٹ نے ہمارے کان کھڑے کر دیئے ،حس رپورٹنگ بیدار ہوئی اور پہلی نظر میں ہی پولیس گردی کا شک گذرا ،

یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی دہشت گرد چھوٹی سی گاڑی میں بچوں سمیت سات افراد کے ساتھ پولیس پر گولیاں برساتا ،سی ٹی ڈی ترجمان کا بھونڈا سا موقف سامنے آیا ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کو سو جوتے لگائے جاتے مگر نہیں پنجاب حکومت کے ترجمان فیاض الحسن چوہان (جن کے اس کاوش سے بیچاری چوہان برادری گالیوں کی زد میں آئی)نے ترجمانی کے جوہر دکھائے ،

کاش بدزبانی میں شعرہ رکھنے والے اس ترجمان کو کسی نے بتایا ہوتا کہ کنٹینر اور حکومت کی ترجمانی میں فرق رکھا جاتا ہے ورنہ کہیں لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں ،

جھوٹ تو جھوٹا تھا اس نے آشکار ہی ہونا تھا ،بعض چینلز پر من مرضی کے تجزیہ کاروں سے ’’باخبر ذرائع‘‘ سے بھی سٹوری چلوائی گئ

مگر بات نہ بنی ،بات بنتی بھی کیسے ؟معصوم بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات میڈیا ریکارڈ کر چکا تھادہشت گردوں ‘‘کو داعش کے نائب امیر کی مسند تک لے آیا تھا دہشت گردی کی بڑی بڑی کاروائیوں میں انہیں ملوث قرار دیا،مگر بھلا ہو میرے ملک کے صحافیوں کا جہنوں نے ’’کوئے‘

 ،معصوم بچوں کے معصومیت نے ہی سارے ڈرامے کو فلاپ کر دیا

،ترجمان سی ٹی ڈی تو ان ’’‘ کو سفید ماننے سے صاف انکار کر دیا ،سوشل میڈیا کے صارفین نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ملی فریضہ جانا یوں ایسی ایسی فوٹیج منظر عام پر آ گئیں جو تبدیلی سرکار کے گلے کا طوق بن گئیں ،اب اس سارے معاملے پر کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم آج کی اس ساری کاروائی نے میرے جیسے ادنیٰ سے صحافی کی انکھیں کھول دیں

،نقیب اللہ محسود کو راؤ انوار نے دہشت گرد قرار دیکر پار کیا تو کوئی جے آئی ٹی کوئی عدالت اسے ہتھکڑی نہ لگا سکی جس کے ردعمل میں محسود تحفظ موومنٹ سے پشتون تحفظ موومنٹ کا عمل مکمل ہوا ،

اس وقت بھی یہی میڈیا تگ ودو نہ کرتا تو حقائق کھبی منظر عام پہ نہیں آنے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ منصوبہ سازوں نے میڈیا کا گلہ کاٹنے کا منصوبہ بنا لیا ،ان کے مطابق نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی ،

مگر لازمی تو نہیں ہے کہ منصوبہ سازوں کا ہر منصوبہ پایہ تکمیل تک جا پہنچے ،ورنہ سلطان لاکھانی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کو بند کرے ،

میر شکیل الرحمن جنگ جیسے ادارے سے سینکڑوں کارکن صحافیوں کو جبری برطرف کرتا جب جنگ اور ایکسپریس جیسے اخبارات بند ہونے کے قریب ہونے لگیں تو دال میں کچھ کالا تو لگتا ہی ہے

،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس ایکسپریس اخبار کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھی ہے

سانحہ سائیوال سے پہلے میرے جیسے کارکن صحافی کے حوصلے پست تھے مگر سی ٹی ڈی کے مکروہ چہرہ آشکار ہونے کے بعد یہ حوصلے بلند ہیں

،آزادی اظہار رائے کی جنگ ہم لڑیں گے ہر قیمت پر لڑیں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے ،

کیونکہ میرا قلم میری قوم کی امانت ہے ،میرا قلم سچائی کا علمبردار ہے ،میرے قلم کی سیاہی قوم کے روشن مستقبل کی محافظ بنے گی ۔۔۔۔ان شاء اللہ
اصغر چوہدری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں