پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 143

ڈیفالٹ کا خطرہ اور مشکل فیصلے

ڈیفالٹ کا خطرہ اور مشکل فیصلے

پاکستان میں معیشت کی تباہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے، یہ سیاسی عدم استحکام ہی ہے کہ جس کے باعث پاکستانی معیشت ڈوبتی جا رہی ہے اور روپیہ اسٹیٹ بینک کی راہ تکتے تکتے تیزی سے بے جان ہوتا جا رہا ہے، لیکن اگر ٹی وی چینل صبح کھولیں تو حمزہ شہباز پنجاب کی وزارت ا علیٰ کا حلف لیتے نظر آتے ہیں اور شام کو کھولیں تو تحریک انصاف عدالت پہنچ کر حمزہ کا اقتدار تمام کرچکی ہوتی ہے

،یہ سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے،جبکہ حکومت اور اپوزیشن قیادت دونوں ہی دبے یا پھر کھلے الفاظ میں موجودہ صورت حال کا ذمے دار مقتدرہ کو قرار دیتے ہوئے غیرجانبداری ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل عام انتخابات ہی ہیں،

لیکن الیکشن کے رواں سال ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کی بڑی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں، کیا انتخابات ہوئے بغیر سیاسی عدم استحکام کا خا تمہ ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں تو جب انتخابات نہیں ہو سکتے اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی لازمی ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہی سوال ہے

کہ جس کا جواب اسلام آباد کے ایوانوں میں ڈھونڈا جا رہا ہے، اس وقت شہباز شریف کے لیے سیاست کے ساتھ معیشت کو سنبھالنا اولین ترجیح ہونی چاہیے، لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ اتحادی حکومت سے سیاسی ومعاشی معاملات سنبھل نہیں رہے ہیں ۔میاںشہباز شریف کے وزیراعظم بننے سے قبل ان کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ پاکستانی سیاست اور معیشت کا شعور رکھتے ہیں اور انتظامی اہلیت سے مالا مال ہیں،

لیکن 3 ماہ کی کارگزاری کے بعد لانے والے حلقوں میں بھی مایوسی پیدا ہوگئی ہے ،ایک طرف ملک بھر میں سیاسی بحران بھڑتا ہی جارہا ہے تو دوسری جانب حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی کے بارے میں ممتاز صنعت کار اوں کاملکی معیشت کو درپیش خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہناہے کہ عالمی ادارے ساری شرائط ماننے کے باوجود پاکستان کو قرض دینے کے معاملے میں گومگو کا شکار ہیں،

جبکہ پاکستان میں ڈالر کی خریدو فروخت بینکوں کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بنتا جارہاہے، جو کہ ملکی معیشت پر خودکش حملے کرنے کے مترادف ہے۔یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ اتحادی حکومت کے دعوئوں کے باوجود مجموعی طور پر ڈالر کی قیمت میں 54 روپے کااضافہ ہوچکاہے، اگر مرکزی بینک اور حکومت نے مل کر اب بھی ڈالرکو لگام نہیں ڈالی تو دسمبر تک اس کی قدر 275 روپے تک پہنچ جائے گی،

ڈالر کی اونچی اڑان اور زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے تاجروں بالخصوص صنعت کاروں کو کیا مسائل درپیش ہیں، ان کے بارے میںایک رپورٹ کے مطابق کرنسی کے بحران نے پورے صنعتی شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ایک طرف معاشی بحران کا سامنا ہے تو دوسرطرف حکومت کی جانب سے بعض اشیا کی درآمد پر پابندی کی وجہ سے ملکی صنعت مشکلات کا سامنا کررہی ہے، اگر مشینری اور مشینوں کے پرزے ہی نہیں آئیں گے

تو صنعتوں کا بتدریج بند ہونا لازم ہے، حکومت کی پابندیوں کے باعث کچھ شعبوں نے تو پیداوار بند بھی کردی ہے۔یہ ایک تجربہ کار ، کامیاب تاجروں اور صنعت کاروں کی حکومت کی کارکردگی ہے کہ جنہیں پہلی بار حکومت نہیں ملی ہے،اتحادی قیادت عالمی مالیاتی اداروں، عالمی طاقتوں اور ان کے رہنمائوں اور تجارتی و صنعتی اداروں سے معاملات کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں، حکومت میں شامل بڑی جماعتوں کے خانوادے کے اربوں ڈالر یورپ اور امریکا کے بینکوں میں پڑے ہیں، اس کے باوجود تین مہینوں میں ڈالر کی قیمت پر قابو پانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، انہوں نے مل کر جو اقدامات کیے ہیں،

اس نے صنعتی سرگرمیوں کو بہتر کرنے کی بجائے متاثر ہی کیا ہے، اس حکومت نے اپنے تین مہینوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے منی لانڈرنگ کے مقدمات سے نجات حاصل کی ہے، تا کہ وہ دعویٰ کرسکیں کہ انہوں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی ہے۔اس حکومت کا پہلے دن سے حدف قومی یا عوامی نہیں ،بلکہ ذاتی ایجنڈا رہا ہے ،اس ایجنڈے پر ہی اتحادی قیادت عمل پیرا ہے ،

انہیں سیاسی استحکام سے غرض ہے نہ معاشی بد حالی دور کرنے کی کوئی فکر ہے ،یہ صرف خود کو محفوظ کرکے اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے استعمال کیے جارہے ہیں ،اگر انہیں ملک وعوام کی کوئی فکر ہوتی تو افہام و تفہیم کی بات کرتے،کشکول سے نجات کے اقدامات کرتے ،الٹا آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ان کی شرائط پر عوام کے گلے پر مہنگائی کی چھریاں چلائے جارہے ہیں،ہماری قیادت جب تک آئی ایم ایف پر انحصار کرتے اور اس کی ڈکٹیشن لیتے رہیں گے ،

ملک وعوام معاشی دلدل سے نہیں نکل سکیں گے، بلکہ مزید دھنستے جائیں گے، ہمیں کوئی دوسرے راستے اختیار کرنا ہوں گے اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام کے محتاج نہ رہیں،اگر عزم ہو تو کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے، تاہم حکومت کو قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے آزادانہ فیصلے کرنے کے حالات پیدا کرنا ہوں گے، اس کے لئے قومی اتفاق رائے اور سیاسی استحکام ضروری ہے ،

اس حوالے سے بنیادی دھارے کی سیاسی قوتیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں،حکومت کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپوزیشن سے اتفاق رائے کی فضاء ہموار کرنا ہو گی،اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک دیوالیہ ہونے سے صرف ایک یا دوبار تو بچا جا سکے گا،مگرتیسری بار آئی ایم ایف اور اس کے سرپرست اپنے مقصد پر آجائیں گے ، اللہ تعالی پاکستان کی حفاظت فرمائے ،آمینا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں