106

لٹیروں سے خود انکے اپنے گھر محفوظ نہیں رہتے

لٹیروں سے خود انکے اپنے گھر محفوظ نہیں رہتے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

سیاست دان، عموما عوامی ووٹوں کا استحصال کر، اقتدار حاصل کرتے ہوئے، ملکی ریسورسز کو لوٹا کرتے ہیں۔ دیش پر سابقہ پینسٹھ سالوں سے حکومت کررہی کانگریس سرکار نے بھی، اپنے طور دیش کو خوب لوٹا تھا اور بیرون ملک بنکوں میں کانگریس سیاست دانوں کا بہت بڑا سرمایہ محفوظ رکھا ہوا تھا۔

اسی کالے دھن کو وطن واپس لانے ہوئے، ہر دیش واسیوں کے ایکاؤنٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ ڈپازٹ کروانے کے جھانسہ کے ساتھ، اقتدار سنبھالے، آرایس ایس، بی جے پی حکمرانون نے، دیش پر اقتدار حاصل کرتے ہوئے، نہ صرف دیش کے ریسورسز کو خوب لوٹا ہے بلکہ ان سنگھی حکمرانوں کے ہاتھوں دیش کی عام عوام بھی محفوظ نہیں رہی ہےدیش کی میں اسٹریم نیشنل میڈیا پر ان سنگھیوں کی اجارہ داری بعد، یہ سنگھی حکمران کس بری طرح دیش کے ریسورسز کو لوٹ رہے ہیں

اس کی خبر عشر عشیر تک، عوام کو نہیں پہنچ رہی ہے، ہاں البتہ ان سنگھیوں کی لوٹ کھسوٹ سے، جہان جہان دیش کی عوام براہ راست متاثر ہورہی ہے،انہیں اس کا احساس ہوا کرتا ہے۔ مثلا” مہان مودی جے کے معشیتی سرجیکل اسٹرائک سے دیش کے امراء جہاں بہت کم متاثر ہوئے تھے وہیں پر دیش کا 80 فیصد غریب و متوسط طبقہ نوٹ بندی سے،اپنی جمع پونچی ایک حد تک کھو چکا تھا۔ نفاظ جی ایس ٹی کی مار بھی دیش کے امراء پر اتنی بارگران نہ ہوئی لیکن غریب و متوسط طبقہ کو نڈھا کرگئی ہے۔

ایک فقیر بھی دن بھر گلی گلی بازار گھوم گھوم کر انتہائی مشقت سے، سو دو سو کما لیتا ہے تو دودھ چاء پتی، یا ٹھیلے والی چاء بسکٹ سینڈوچ، پان بیڑی ، صابن ٹوٹھ پیسٹ سمیت ضروریات زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر 10 سے 30 فیصد اجمالی طور 20 فیصد جی ایس ٹی ادا کیا کرتا ہے۔ پہلے دیش کی مالیات کا آمدن زیادہ تر حصہ،تونگروں کے ٹیکس ہی کو مانا جاتا تھا لیکن فی زمانہ تونگر حضرات، سیاسی گلیاروں میں، اپنے تعلقات کے چلتے، یا رشوت کے سہارے، حکومت کے ٹیکس پیسے ادا کرنے کے بجائے ،

غریب و متوسط طبقہ سے جمع ٹیکس پیسوں سے،اپنا حصہ وصول کرنے کے فراق میں پائے جاتے ہیں۔ پینسٹھ سالہ کانگریس راج میں، نیشنل ریسورسز کی لوٹ کھسوٹ باوجود، بے تحاشہ تعلیمی ترقیات، صحت عامہ کے ساتھ معاشرتی، نیز تجارتی و صنعتی ترقیات نے ضیافت تر دیش واسیوں کو ایک حد تک جہاں آسودہ کیا ہوا تھا، وہیں،بتدریج ترقی پذیر5 سالہ ترقیاتی منصوبوں پر سنجیدگی سے عمل پیرائی کے نتیجہ میں، 21 وین صدی کی ابتداء عالمی منڈی کی مار جھیلنے کے باوجود، بھارت کی معشیت کچھ اس تیز رفتاری سے

ترقیات کے زینے عبور کررہی تھی کہ 2014 سے پہلے بھارت کی تیز تر ترقیات کو دیکھتے ہوئے عالم کے معشیتی پنڈت 2030 تک بھارت کو عال۔ کے دعویداری کی دوسری مئں چائینا کے برابر تصور کرتے تھے۔ آج یہ وہی بھارت اور اس معشیت ہے جو وائبرنٹ گجرات کے معمار کے ہاتھوں لٹتی تباہ و برباد ہوتی عالم کے دو دو ملکوں کی ترویات دور میں پس ماندہ ممالک کی فہرست والے پائیدان تک پہنچ چکی ہے

کانگریس کرپٹ تھی اس سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن ان کے کرپشن کے باوجود، دیش واسی خوشحال تھے، لیکن اب اچھے دن لانے والے مہان مودی جی کے 8 سالہ دور حکومت میں، سرکاری ریسورسز کو لوٹنے لوٹتے عوام کو لوٹ رہی سرکاری پالیسیز سے، 80 فیصد دیش کی غریب و متوسط عوام دو وقت کا کھانا بھی سکون سے نہیں کھا پا رہی ہے۔بے روزگاری شرح اور مہنگائی شرح میں گویا کون آگے کون آگے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

دیش کے نجی بنکوں کو محترمہ اندرا گاندھی صاحب نے نیشنلایز کرتے ہوئے دیش کو ترقیات کی پٹری پر ڈالا تھا، انہی نیشنلائر بنکوں کو اپنے گجراتی پونجی پتیوں کے لاکھوں کروڑ کے قرضے معاف کراتے کراتے،انہیں مکمل طور تباہ و برباد کرتے ہوئے،انہی بینکوں کو یہ نوری سرکار، بڑے پونجی پتیوں کے ہاتھوں دیتی نظر آرہی ہے۔ ہمارے استاد مرحوم کہا کرتے تھے آج کے تمام سیاست دان چور ہیں

ان تمام چوروں میں کم حیثیت والے ایسے چور کا انتخاب کرنا ہے جو تھوڑا بہت عوام کی بہبود کے کام بھی کرے۔ ان 8 سالہ سنگھی مودی یوگی راج میں، بھارت کی معشیتی جو ابتر حالت بنی ہے، اس سے تو ہمیں ان کی چوری ڈکیٹی کے باوجود، دیش کو ترقی پذیر کرنے والی کانگرہس سرکار ہی اچھی لگتی ہے

۔ 140کروڑ دیش واسیوں کو، اپنے بہتر اور شاندار مستقبل کے لئے کون بہتر ہے؟ پینسٹھ سالہ اپنے راج میں بھارت کو عالمی معشیت بنانے والی کانگریس یا پینسٹھ سالہ کا نگریس دور تعمیر بھارت کو، اپنے 8 سالہ سنگھی راج میں، ٹہس نہس کرنے والی سنگھی ارایس ایس، بی جے پی مودی یوگی سرکار؟ اسکا فیصلہ2024 میں دیش کے عوام کو کرنا ہے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں