پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 131

سیاسی بحران سے نجات کی راہیں !

سیاسی بحران سے نجات کی راہیں !

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ساڑھے تین ماہ سے اقتدار کی جنگ جاری ہے ، یہ سیاسی جنگ اب ایوان پار لیمان سے عدالت عظمی ٰ تک جا پہنچی ہے، سیاسی قیادت حصول تخت پنجاب کیلئے سب کچھ دائوپر لگا نے پر تلے ہیں، اس کے انتہائی منفی اثرات ملک کی پورے سیاسی و معاشی ماحول پر مرتب ہورہے ہیں،تاہم سیاسی قیادت بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدلیہ پر دبائو ڈالنے میں کوشاںہیں کہ فیصلہ اُن کے حق میں اُن کی مرضی کا آئے ، سپریم کورٹ کا فیصلہ تو آئین و قانون کے زیر اثر ہی آئے گا ،لیکن اس فیصلے کے بعد سیاسی استحکام آئے گا نہ سیاسی انتشار کا خاتمہ ہو سکے گا

،بلکہ سیاست میں تشدت کا رجحان بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے،ملک میں جب تک عام انتخابات نہیں ہوں گے ،سیاسی استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔یہ امر واضح ہے کہ تحریک انصاف قیادت فوری انتخابات کا مطالبہ کرر ہے ہیں ،لیکن اتحادی حکومت انتخابات کروانے کیلئے تیار نہیں ،کیو نکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوری انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ اقتدار ہاتھ نہیں آئے گا ،اس لیے ایک طرف اپنی مدت پوری کرنے پر زور دیا جارہا ہے تو دوسری جانب حصول تخت پنجاب کیلئے تمام تر آئینی و غیر آئینی حربے استعمال کیے جارہے ہیں ،یہ سیاسی قیادت کے غیر جمہوری رویوں کا نتیجہ ہے

کہ بار بار معاملہ اعلی عدلیہ کے پاس چلا جاتا ہے ،ایک طرف سیاسی قیادت اپنے معاملات پارلیمان میں حل کرنے کے بجائے عدالت میں لے جارہے ہیں تو دوسری جانب عدالتی فیصلوں پر بے جاتنقید کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں ،اس میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحادی جماعتیں بھی برابر کی شریک کار ہیں۔
تحریک انصاف قیادت آئے روز عدالت پر رات بارہ بجے کھلنے سے لے کر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تک کے فیصلے پر تنقید کرتے رہے اور اب مسلم لیگ (ن) وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب پر ہونے والی عدالتی کارروائی پر اعتراض کر رہی ہے

،مسلم لیگ (ن) کے وزیر داخلہ رانا ثنا کا کہناہے کہ (ن) لیگ مخالف سوچ رکھنے والے ججز کو ہمارے کیسز نہیں سننے چاہئیں، گویا کہ مسلم لیگ(ن )کے حامی سوچ والے ججز عدلیہ میںموجود ہیں ،مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کھل کر عدالت عظمیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بار بار ایک ہی بنچ سے مخصوص فیصلے ہورہے ہیں، ہم اب سر نہیں جھکائیں گے ،جب کہ حکمراں اتحاد نے مطالبہ کیا ہے

کہ اس اہم مقدمے کی سماعت فل کورٹ کرے۔ یہ براہ راست عدالت عظمیٰ کے فیصلوں سے اختلاف اور اسے اپنی مرضی سے چلانے کی خواہش کا اظہار ہے،ایسی باتوں سے لگتا ہے کہ اب عدالت کے فیصلے نہ ماننے کی باری مسلم لیگ( ن) کی ہے۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ حکمراں پہلے صرف اقتدار کی باریاں لیتے تھے،لیکن اب عدالتی فیصلوں کی باریاں بھی لینے لگے ہیں، یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگلی باری کے لیے جیلوں میں جاتے ہیں اور مقدمات کا بھی سامنا کرتے ہیں، اس بار تخت پنجاب کیلئے بھی اعلی عدلیہ کا سامنا کیا جارہا ہے

،لیکن مسلم لیگ (ن) کے انداز اور ججوں کے ریمارکس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عدالت ایک دوروز میں ہی حمزہ شہباز کے انتخاب کو کالعدم قرار دے گی،لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ عدالت کی جانب سے بہت سے مقدمات میں ریمارکس کے برعکس فیصلے آتے ہیں، اس مرتبہ بھی ضروری نہیں کہ فیصلہ ان کے ریمارکس کے مطابق ہی آئے، لیکن مسلم لیگ (ن) کے ردعمل اور حکمراں اتحاد کے مطالبے کی روشنی میں یہی لگ رہاہے

کہ عدالت فیصلہ ان کے خلاف دے سکتی ہے ،حکمراں اتحاد مطالبات کے ساتھ عدالت میں درخواست دائر کررہے ہیں،عدالت کیا کرے گی، اس کا فیصلہ جلد ہی سامنے آجائے گا ،لیکن اس دورا ن اتحادی حکومت نے ملک کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اس ملک میں یکے بعد دیگرے آنیاں جانیاں لگی ہیں ،لیکن ملک وعوام کے مفاد میں کچھ سوچا جارہا ہے نہ سیاسی بحران کے خاتمہ کی کوئی تدبیر کی جارہی ہے

،اس ملک میں ہر آنے والا اپنے مفاد ی ایجنڈے پر آرہا ہے اور اغیار کے ایجنڈے پرواپس جارہا ہے ،یہ مقتدرہ کے ساتھ مل کر کھیلے جا نے والا سیاسی کھیل ملک وعوام کی تباہی کا باعث بن رہا ہے ،اس آئے روز کے کھیل تماشے سے عوام تنگ آچکے ہیں ،عوام اپنے مسائل کا تدارک اوراپنے فیصلوں کا احترام چاہئے ہیں،عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے ،وہ دن دور نہیں کہ جب عوام کا ہاتھ اور حکمرانوں کا گریباں ہو گا

،اس وقت سے ڈریئے اور سنبھل جائے ،عوام اپنی عدالت میں فیصلہ کرنے میں زرا بھی دیر نہیں لگائیں گے ،جہاں تک اعلی عدالیہ کا معاملہ ہے تو ان کے پاس سیاستدانوں کے بے ہودہ مقدمات کے علاوہ بھی سیکڑوں معاملات ہیں کہ جن کا فیصلہ جلد ہونا چاہیے ،عوامی مقدمات زیر التوا ہیں اور سیاسی مقدمات فوری نمٹانے کی دھائی دی جارہی ہے ، سیاسی معاملات بار ہا فوری نمٹائے گئے ،اس بار بھی معاملہ نمٹا ہی دیا جائے گا ،لیکن اس سے سیاسی بحران سے نجات کوئی راہیں نکلتی نظر نہیں آرہی ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں