144

نیب قوانین میں ترمیم کی بجائے ہتھک عزت کے قوانین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے !

نیب قوانین میں ترمیم کی بجائے ہتھک عزت کے قوانین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے !

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت نے جنگی بنیادوں پر قومی اسمبلی اجلاس میں احتساب بیورو آرڈیننس 1999میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرایا۔ان ترامیم کے مطابق نیب گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب کورٹ میں پیش کرنے پابند ہوگا، کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکے گی۔ نیب اب 6 ماہ کی حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا اس سے پہلے نیب چارسال تک انکوائری شروع نہیں کرتا تھا۔ نیب گرفتاری سے پہلے کافی ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا

اور ریمانڈ نوے دن سے کم کرکے چودہ دن کردیا گیابل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دئیے گئے جبکہ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کےبعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیابل کے مطابق چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کاچارج ملے گا اور مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے

کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بے قائدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا اور احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوگی احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی اس بل میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل دو ماہ پہلے شروع کیا جائے گا نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل چالیس روز میں مکمل ہوگا

وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائیگا پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام تیس روز میں فائنل کرے گی جبکہ چیئرمین نیب کی تین سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا اس بل کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے باوجود صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے قومی احتساب بیوروکے وسیع تر اختیارات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا مسودہ منظور کرنے سے انکار کیا تاہم اس کے باوجود یہ بل قانون بن چکا ہے

۔جس کے بعد صدرمملکت کی آزاد حیثیت متاثر ہوئی ہے دستخط سے انکار کی بجائے اگر وہ صدر مملکت کے منصب سے مستعفی ہوجاتے تو ان کا مقام بلند تر ہوجاتا مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے صدر کے منصب کو متاثر کیا اس بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے اس خیال کو مسترد کیا کہ قانون سازی کا مقصد مسلم لیگ ن کی قیادت اور حکومت کے خلاف بدعنوانی کے کیسز کو ختم کروانا ہے

بقول ان کے نیب میں ہمارے خلاف کیسز جاری رہیں گے تاہم نیب کی جانب سے ان کے خلاف دائر کردہ کیسز سابق وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر بنائے گئے جو سیاسی انجینئرنگ اور مخالفین پر دباو ڈالنے کے لیے بنائے گئے اس بل کی منظوری پر عمران خان نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے اس بل کی منظوری نے بہت سارے سوالات پیدا ہوئے شاید خاقان عباسی کی وضاحت کے بعد وہ ختم ہو چکے ہیں تاہم اگر حکومت نیب ترامیم میں مقدمات کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی بجائے

ہتھک عزت کے قانون کوبہتر بنانے کے لئے قانون سازی کر تی جس میں کیس کا چھ ماہ میں فیصلہ اور الزام کا ثبوت پیش کرنے کا پابند بنادیا جاتا جھوٹے الزام پر سخت سزا تجویز کی جاتی تو ملکی سیاسی سے بہت سارا گند صاف ہو جاتا کیونکہ اس وقت الزام عائد کرنا سب سے آسان کام بن چکا ہے جس کی صفائی جس پر ناکردہ گناہ کا الزام عائد کیا جاتا ہے کو دینا پڑتا ہے کیونکہ الزام کا ثبوت پیش کرنا الزام عائد کرنے والے پر نہیں ہے

جس کی وجہ سے جس کے منہ میں جو کچھ آئے وہی الزام عائد کردیتا ہے تاہم ا ب بھی وقت ہے کہ حکومت اس سلسلے میں جلد ہی قانون سازی کی جانب جائے اس سے ملکی سیاست کو بہت فائدہ پہنچے گا

https://www.youtube.com/c/FSMediaNetwork/videos

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں