اپنےجرات مندانہ ایمانی جذبہ کو ثابت کرنے کا وقت 177

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس

نقش نائطی
۔ +966562677707

مولانا توقیر رضا خان کو مسلم امہ، اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرتے ہوئے، انکی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کیا کھڑی پائی جائیگی؟
یہ بھینس، کسی کے کھیتوں میں چرنے والی اصلی بھینس ہو، یا سیاسی بساط پر قوموں اور کروڑوں جنتا کی قسمت کے فیصلے کرنے والی بھینس۔ اسی کے دہے بعد، دیش کہ دھرتی پر ایک آواز گونجا کرتی تھی جس کو کہنے والا تھا تو نحیف سا انسان، ایک اخبار کا کارٹونسٹ تھا، لیکن اسکے آس پاس، اس کے شیدائی انسانوں کا ایسا جم غفیر ہوتا تھا

کہ جو اس کی نحیف سی آواز کو، جدد پسند مائکرو فون سسٹم کے ہزار گنا تیز تر بڑھا کر، معاشرے میں ایسا پھیلایا کرتا تھا کہ ، لوگ تو لوگ، حکومتی ایوانوں تک بھی سراسیمگی پھیل جایا کرتی تھی۔ دیش کے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف، آس کے بول کے زہر کو، اس کے آس پاس، اسکے آیک اشارے پر مرمٹنے والے لوگوں کا جم غفیر، اس کے منھ سے نکلے ہر زہر کو، زہر نہیں امرت ثابت کرنے کافی ہوا کرتا تھا۔

اس کے خلاف، عوامی مختلف طبقوں کی طرف سے کتنے ایف آئی آر کاٹے گئے؟ یا کتنے ہزار مقدمات درج ہوئے؟ حکومت وقت بھی کئی مرتبہ اسکے خلاف تادیبی کاروائی کا من بنا چکی تھی، لیکن ہر مرتبہ اس کی عوامی مقبولیت اور اس کے ایک اشارے پر سڑکوں پر نکل، حکومتی املاک کو تہس نہس کرتا ہجوم،

ہر کسی کو،اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے مانع رکھتے ہوئے تھآ۔ بالآخر اپنے وقت کا سب سے بڑا دہشت گرد، جنونی، مسلم مخالف، کہ شمالی ھندی مخالف ذہن، بعد موت سرکاری گارڈ آف ہونر بدائی کے ساتھ، صدا کے لئے امرت بن چکا ہے۔ یہ تو اچھا ہوا، اسکا اپنا لاڈلا اکلوتا فرزند، اب اپنی پرانی منفی سوچ کو مثبت سوچ میں بدلتے ہوئے، قوم و وطن کی خدمت میں سراپا منہمک پایاجارہا ہے

ہمیں یاد پڑتا ہے اپنے وقت کے عطیم رہنما، حقائق پر مبنی، اپنی تیکھی آواز سے، یوپی مسلمانوں کے سب سے بڑے مقبول لیڈر، اعظم خان ، اپنے وقت کے نائب وزیر اعلی رہتے،سرسید ڈے تقریبات الجبیل سعودی عربیہ، یہاں تشریف لائے تھے تو، انکے ساتھ اسپیچ پر، اس جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے، اس احقر کو، جب انہیں قریب سے دیکھنے سمجھنے کا اتفاق ہوا تھا تو اس وقت عوامی تقریر میں، اس وقت یوپی کی سابق چیف منسٹرمایاوتی کےبارے میں کہے، ان کے الفاظ ہمیں اکثر یاد آتے ہیں۔

ہزار کمیوں خامیوں کے باوجود، انکی دلت قوم جو اس کے پیچھے کھڑی پائی جاتی ہے، وہی اسے دلت قوم کا عظیم رہنما، ایک لاتسخیر طاقت کے روپ میں، اسکی اہمیت منوانے میں ممد و مددگار ثابت ہوا کرتی ہے اور ہماری مسلم امہ ھند، اپنے لیڈران کی بے تحاشہ خوبیوں کو نظر انداز کر، ان میں موجود کچھ خامیوں کمیوں سے، اپنے لیڈران کے پاؤں ہمہ وقت خود کھینچنے یوئے، سیکیولر معاشرے میں، خصوصا دشمن اسلام کے بیچ, اچھے بھلے مسلم لیڈران کو، بے وقعت رکھ چھوڑنے کے لئے کافی ہوا کرتی ہے

۔پندرہ ایک سال قبل اعظم خان کے کہے، انہی کے الفاظ کو, ابھی دو ایک سال قبل، اپنے سر پر کئی سو مقدمات کو، اپنی نڈرتا کے زیور کی طرح اپنےماتھےپر سجائے، یوپی اقتدار اعلی حاصل کرنے والے مہاراج نے، یوپی مسلمانوں کے, اتنے عظیم لیڈر کو، انکے فرزند و شریک حیات کے ساتھ، دو سال سے جیل کی، کال کوٹھڑی میں بند کرنے کی ہمت، صرف اور صرف ہم مسلمانوں کی بے توجہی و بے غیرتی کی وجہ سے، انہیں موقع دے گئی ہے۔

کوئی بھی ہو کوئی جرم واقعتا اس سے سرزد ہو جائے تو، سزا ملنا گورا ہوسکتا ہے،لیکن صرف سیاسی دشمنی کی خاطر ہی نہیں، بلکہ یوپی کی سب سے بڑی اقلیت ہم بیس سے پچیس فیصد یوپی کے مسلمانوں کو، اپنے ظالمانہ، غیر منصفانہ عتاب سے، انہیں پست ہمت، غلاموں کی طرح دبائے جینے پر مجبور کئے، ثانوی حیثیت کے شہری بنائے رکھنے ہی کی خاطر، نہ صرف جھوٹے، بلکہ کتاب چوری، فرنیچر چوری جیسے گھٹیاالزامات لگائے،

ایک عظیم لیڈر کو بیٹے و بیوی کے ساتھ دو سال تک جیل میں بند رکھنے کی غرض و غایت، صرف اقتدار کے نشے میں، وہ سب کچھ کر سکتےہیں، یہی ثابت کرتے ،انکے اقدامات لگتے ہیں۔ انکے اعظم گڑھ حلقے کے ووٹروں نے، ان دونوں باپ بیٹوں کو، انکے جیل میں رہتے، اب کی انتخاب جتوا کر، ان کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے پائےجانے کو، ایک حد تک ثابت ضرور کیا ہے، لیکن ان کی یوگی مہاراج کے

ہاتھوں گرفتاری صحیح وقت پر، ان کے شیدائی عوام کی پشت پناہی جو انہیں درکار تھی، اگر وقت پر عوامی ھجومی ساتھ ان کے پیچھے کھڑی پائی گئی ہوتی تو، دو سال اعظم خان جیسے عظیم لیڈر کو،جیل کی سلاخوں کے پیچھے، نہ سڑنا پڑتا!

“سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” نعرے والی سرکار میں، بھارت کی سب سے بڑی اقلیت 20 فیصد کم و بیش 30 کروڑ ہم مسلمانوں کے لئے تو، 2014 کے بعد والے یہ سنگھی منافرتی 8 سال، انتہائی تکلیف دہ، صبر آزما دور رہا ہے۔ وندے ماترم، سوریہ نمسکار، یوگا جیسے کامیاب تجربات کے بعد، خود اپنی اردھانجلی رخ ثانی بیوی محترمہ کو،ذرا برابر سکھ شانتی نہ دینے والے مہان ھندو ویر سمراٹ نے، 30 کروڑ ہم مسلمانوں کی نساء، ہمدرد و غم خوار ثابت کرتے ہوئے،

دیش کے سیکیولر دستورالھند میں، مسلم پرسنل کی صورت آزادی مذہبی پاسداری کا حق دئیے، تمام تر حقوق کی خلاف ورزی کئے، مسلم نساء ہی ہر ظلم عظیم ڈھاتے، ٹرپل طلاق آرڈیننس ہوکہ ، پانچ سو سالہ تمام تر قانونی رجسٹری کاغذ پتر والی بابری مسجد آراضی کو دیش کی عدلیہ پردباؤ برقرار رکھے، بابری مسجد اراضی کو قاتل بابری مسجد ٹولے ہی کے سپرد کرتے فیصلے تناظر میں، اب گیان و!پی مسجد اور متھرا عیدگاہ کے بہانے

دیش بھر میں مسلم منافرت بھڑکاتے پس منظر میں اور اسکول و کالج یونیفارم ڈریس کوٹ کے بہانے صدا حجاب پہنتی مسلم طالبات کو، حجاب سے ماورا کرتے یا حجاب کے لئے اعلی عصری علوم سے محروم انہیں جینے پر مجبور کرتے، عدالتی فیصلوں کے تناظر میں اور صدا سے مائکروفون پر دی جانے والی مساجد آذان کے خلاف، ھندو شرہسندوں کے، مساجد کے سامنے، ہنومان چالیسیہ پڑھتے منافرتی اقدامات، سنگھی حکومتی سر پرستی پس منظر کے باوجود،بھارتیہ مسلمانوں کے صبر و تحمل کو برافروختہ کرنے

اور انہیں سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلنے مجبور کرنے ہی کی خاطر،اپنے بی جے پی ترجمان نپور شرما اور نوین جندال کو سامنے کئے، 30 کروڑبھارتیہ اور 200 کروڑعالم کے، ہم مسلمانوں کے نبی آخر الزمان، سرور کونین مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم پر، نازیبا الزام تراشی کئے، پس منظر میں، بن لیڈر ایسے تیسے جی رہے ہم 30 کروڑ بھارتیہ امہ کو، اپنے درمیان صحیح معنوں ایک نڈر لیڈر کی کمی کا احساس خوب تر محسوس کروایا ہے اس کے لئے، ہم مودی یوگی سنگھی منافرتی بریگیڈ کے ممنون و مشکور ہیں

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم 30 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں کا لیڈر کون ہو؟ کیسا ہو؟ کون سے فرقے کون سے مسلک کا ہو؟ کیا اب تک بعد آزادی ھند ان 75 سالوں میں، ایک حد تک بے مہار جی رہے ہم 30 کروڑ مسلم کو، کیا واقعتا” کوئی صحیح سیاسی رہنمائی کرنے والا کوئی ایک مسلم لیڈر مل بھی پائے گا؟ ہم 30 کروڑ مسلمانوں کو کسی ایک لیڈر کی سرپرستی میں ایک ساتھ جمع رہتے، اپنے حقوق کی بازیابی کا موقع،

سو سالہ آرایس ایس، بی جے پی منافرتی مسلم دشمن تنظیم اور اس کی زر خرید بکاؤ بھونپو میڈیا، سکون سے کرنے دیگی؟ یا اپنے بے موقعہ منافرتی اشتعال انگیز سوالات سے، ہمارے درمیان موجود، اختلافی دراڑ کو، اور مزید گہرا کرتے ہوئے، ہمیں مسلکی، مذہبی، تفرقہ بازیوں میں، منتشر رکھے، ان بے غیرت گیڈر نما اسلام دشمنوں کے سامنے، اللہ کے ہم شیروں کو، ان کے لئے لقمہ تر بناتے ہوئے، انکے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتے، اپنے دین اسلام کے اعلی اقدار سے ماورا ،جینے مجبور کیا جائیگا؟

آج کے اس مسلم مخالف، سنگھی مودی یوگی منافرتی دور اقتدار میں، مذہبی تفکر سے ایک حد تک آزاد، سیاسی سوچ بوجھ والا،تمام ترخوبیوں پر مشتمل نڈر، بے باک، قانون ملکی پر گہری دسترس والآ، ایک ہی لیڈر ملنا مشکل نہ صحیح، ہم تمام 30 کروڑ مسلمانوں کا ایک لیڈر کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح، کھڑے پایا جانا مشکل تر، بلکہ ناممکن امر لگتا ہے۔ دراصل بھلے ہی ہم مسلم امہ،جذباتی طور کسی بھی اچھے نڈر لیڈر کے پیچھےکھڑے پائے جاسکتے ہیں، لیکن ہمارے علماء کرام اور پشتینی لیڈران ہی،

ہمیں کسی بھی ایک مسلم لیڈر کے پیچھے،سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہونے نہیں دیں گے۔ کہیں دیوبندی ندوی بریلوی مکتبہ فکر کی بات سامنے لائی جاتی ہے تو کہیں مقلد و غیر مقلد کے ابہامات کو ہوا دی جاتی ہے۔ تو کہیں اعظم خان جیسے سنجیدہ رہبر کو داڑھی منڈھا لااعتبار کہا جاتا ہے تو اسد الدین اویسی جیسے مخلص نڈر صاف گو سیاسی سوچ بوجھ رکھنے والے، مسلم مسائل پر ایوان پارلیمنٹ میں بانگ درا ڈھاڑنے والے واقعتا” مخلص لیڈر کو ہی، بی جے پی سے قربت، اسکی بی ٹیم جیسے بے ہودہ الزام تراشی کا شکار بنا،

انہیں، بے وقعت، بےاثر ثابت کرنے کی سعی ناتمام ہوتی ہے،ارشد مدنی مدظلہ اپنے دیش بھر اسیر مسلمانوں کی رہائی قانونی چارہ گوئی کے اعتبار سے لائق امامت مسلم امہ ھند بننے کے اہل ہیں لیکن ان کے سنگھی ذہن بڑے لیڈروں سے قربت اور سنگھی ایجنڈے کے قریب مسلم امہ کو مائل کرنے الزام لگتے پس منظر میں اور خصوصا کسی دوسرے مقتدر مسلم لیڈر کو، قبول نہیں کرنے انکے تیور کے بیچ، بالاتفاق انہیں بھی کوئی قبول کرے،

یہ مشکل امر لگتا ہے۔ اتحاد مسلم ملت کے مرکزی صدر حضرت مولانا توقیر رضا خان نے شاتم رسول رحمت العالمین، محمد مصطفی ﷺ پر، بی جے پی ترجمان نپور شرما و نویں جندل کے خلاف، بعد نماز نماز جمعہ، عوامی احتجاج کا جو نعرہ دیا تھا، حکومتی دفاعی روزگار اسکیم اگنی پتھ کے خلاف شمال ھند کی اکثر ریاستوں میں بھڑکی احتجاجی آگ و ہنگامہ آرائی و سرکاری املاک ریل گاڑیاں نظر آتش کرتے پس منظر میں، اور سنگھی مودی یوگی بریگیڈ کی طرف سے، عید المومنین یوم جمعہ کو سازش کے تحت بدنام کرتئ

۔پس منظر میں، 17 جون جمعہ والا احتجاج ملتوی کرنےکا جو اعلان کیا گیا تھا، اتوار بریلی اسلامیہ میدان میں لاکھوں کے مجمع، جمع کر ناموس رسالت ﷺ پر، مسلم امہ کے غم و غصہ کا اظہار جس بہتر بے باکانہ انداز محترم مولانا توقیر رضا خان نے کیا ہے اور جس نڈرتا سےسنگھی حکومتی پالیسیز،خصوصا مسلم پرامن احتجاج پر پولیس لاٹھی چارج اور فائرنگ میں دو مسلم نوجوانوں کے شہید کئے جانے اور پرامن احتجاجیوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کئے جاتے، بی جے ہی حکومتی ریاستی دہشت گردی

اور اگنی پتھ حکومتی مخالف احتجاج، کئی سو کروڑ کی حکومتی املاک، نذر اتش کرتے دہشت گردانہ احتجاجی کاروائی کے باوجود، سنگھی حکومتی مصالحتی روئیے کے خلاف، لاکھوں کے مجمع میں مولانا توقیر رضا خان کی ڈھاڑتی آواز، انہیں بھی مسلم امہ ھند کی قیادت کا اہل ثابت کرتی ہے. خصوصا سابقہ 8 سالہ سنگھی دور حکومت میں، کسی نہ کسی بہانے سے مودی یوگی بریگیڈ کے، ہم بھارتیہ مسلمانوں پر کئے جاتے

مظالم کے خلاف، انہوں نے عالمی ادارہ انسانیت، یو این اور کے دروازے کھٹکٹانے کا عندیہ جو دیا ہے، وہ بھارت کے اکثریتی ھندو آبادی کو، ان سنگھی مودی یوگی برگیڈ کے ہاتھوں عالمی سطح ہونے والی ممکنہ رسوائی کے خلاف، سنگھی مودی یوگی برگیڈ کے خلاف، صف بستہ ہونے کی آواز بھی دیتا ہے
ایسے میں ہم بھارت کی آبادی کے پانچویں بڑے حصہ، 30 کروڑ ہم مسلمانوں کا سیاسی لیڈر کون ہوگا؟ اس پر رائے عامہ ہموار کرتے، مسلم امہ ھند کی نیابت پر بالاتفاق فیصلہ لینے کا اب مناسب وقت ہے۔ اس سمت اس احقر کی رائے یہ ہے کہ کسی ایک لیڈر پے اتفاق رائے مشکل نظر آتے پس منظر میں، حضرت مولانا توقیر رضا خان بریلوی، حضرت مولانا ارشد مدنی قاسمی دیوبندی، حضرت مولانا رابع حسنی ندوی

،یا انکی طرف سے کوئی جوان سال قیادت کی نشاندہی سے، اعلی الذکر تین جید علماء کرام کے ساتھ ہی ساتھ، پارلیمنٹ میں صدا مسلم آواز کی صورت گونجنے والی، شیر دکن اسدالدین اویسی مدظلہ، شیر مسلم امہ سیاست اعظم خان جیسے سیاسی و مذہبی لیڈران پر مشتمل صرف پانچ تا سات رکنی سیاستی مشاورت قایم کی جائے اور مشاورتی نظام کے اعتبار سے مسلم امہ ھند ہم 30 کروڑ مسلمانوں کی سیاسی نیابت کی جائے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں