قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی سزا بھی، عبرت ناک ہوا کرتی ہے" 320

مکہ کے باہر غار ثور پر ایک غائرانہ نظر

مکہ کے باہر غار ثور پر ایک غائرانہ نظر

ابن بھٹکلی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1254478668320446&id=100012749744841
یہ وہی مشہور غار ثور ہے جس میں آقاء نامدار سرورکونین محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ اور آپ کے اولین ساتھی حضرات ابوبکر صدیق رض مکہ سے مدینہ حجرت کرتے وقت آرام کیا تھا
دراصل آپ ﷺ کو نعوذ باللہ قتل کرنے کی مکہ کے تمام سرداروں نے سازش رچی تھی اسلئے دشمن اسلام کی نظر میں آنے سے بچنے کے لئے، مکہ سے کچھ کلومیٹر دور ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک غار میں دن کے سفر سے بچنے کے لئے آرام کیا تھا اس غار ثور میں آپ ﷺ کے پناہ لئے رہتے وقت حضرت ابوبکر صدیق رض سب سے پہلے غار میں گھسے تھے

اور غار کے پھتروں کے بیچ سوراخ کو کپڑوں سے ڈھک دیا تھا لیکن فاضل کپڑے کی کمی کی وجہ سے ایک سوراج بند ہونے سے جو رہ گیا تھا اس پر حضرت ابوبکر صدیق رض نے اپنا پیر رکھ کر اسے بھی بند کردیا تھا اور مکمل اطمینان ہونے کے بعد رسول اللہﷺ کو اندر بلایا تھا ۔آپ ﷺ اندر آکر حضرت ابوبکر صدیق کی رانوں پر سوگئے تھے جس سوراخ پر پاؤں رکھ اسے بند کر دیا تھا اسی میں ایک سانپ کا بسیرا تھا ۔ سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق کے پاؤں میں ڈسنا شروع کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رض درد برداشت کرتے رہے لیکن پاؤں کو نہیں ہٹایا درد سے کراہتے ہوئے

حضرت ابوبکر صدیق رض کی آنکھ یا ناک سے پانی کا قطرہ آپ ﷺ پر گرنے سے آپﷺ کی آنکھ کھل گئی آپ ﷺ کے پوچھنے پر سانپ کے ڈسنے کا معاملہ سامنے آیا تب آپﷺ اس سانپ کے ڈسی جگہ پر اپنا لعاب دہن لگاکر اس سانپ کے زہر کو زائل کیا تھا ۔ اسی غار ثور کے متعلق مشہور ہے کہ آپ ﷺ کے وہاں پناہ لینے کے بعد اللہ رب العزت کے

حکم سے ایک مکڑی نے غار کے منھ پر اپنا جالا تان لیا تھا اور ایک کبوتر نے غار کے منھ پر اپنا گھونسلا بنا دیا تھا تاکہ دشمن اسلام غار تک پہنچ بھی جائیں تو اس غار کو مکڑی کے جالے کی وجہ سے غیر آباد سمجھیں۔اور یہی ہوا بھی تھا دشمن اسلام غار کے پاس پہنچ جانے کے باوجود، مکڑی کے جالے کی وجہ سے اسے غیر آباد سمجھتے ہوئے، اندر جھانک کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی

یہ وہی غار ثور ہے جو مکہ کے باہر مدینہ کے راستہ پر پڑتا ہے ۔ عموما حجاج کرام اس غار کو دیکھنے بھی جایا کرتے ہیں

ایک سوال:- رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں تشریف لے گئے تھے، کیا اس وقت مکڑی نے غار کے دھانے پر جالا تن دیا تھا؟ اور کبوتر نے انڈے بچے دے دئے تھے؟ یہ ثابت ہے یا نہیں؟ اگر ثابت ہے تو کیا یہ اسی وقت اچانک ہوگیا تھا یا کبوتر نے پہلے سے گھونسلہ بناکر پہلے سے انڈے دیے ہوئے تھے؟ نیز کیا سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کاٹا تھا؟

جواب:-مذکورہ سوال میں چند باتیں مذکور ہیں، انہیں ذیل میں الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔مکڑی کا جالا تننا۔
۲۔کبوتر کا انڈے دینا۔
۳۔گھونسلہ بنانا۔
۴۔سانپ کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ڈسنا۔
پہلی بات : مکڑی کا جالا تننا:
یہ بات مختلف حضرات نے اپنی سندوں کے ساتھ نقل کی ہے، مثلاً: امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا :
“وأمر الله العنکبوت فنسجت في وجه النبي صلی الله علیه وسلم فسترته”. (دلائل النبوة: ۲/۳۵۴، ط:دارالحدیث القاهرة)
امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ سند اگرچہ کم زور ہے، لیکن مختلف حضرات نے چوں کہ اسے ذکر کیا ہے اور مسئلہ کا تعلق احکام سے بھی نہیں ہے، لہذا یہ روایت قابلِ قبول ہوگی۔
دوسری بات: کبوتر کا انڈے دینا :
یہ بات ہمیں تاحال نہ مل سکی ، البتہ یہ بات ملی ہے کہ دو کبوتر آکر غار کے دہانے کھڑے ہوگئے اور آپ علیہ السلام کو چھپا لیا، امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت ہے:
“وأمر الله حمامتین وحشیتین فوقفتا بفم الغار”. (دلائل النبوة: ۲/۳۵۴)
تیسری بات: کبوتر کا گھونسلہ بنانا:
اس بات کو بھی کئی حضرات نے نقل کیا ہے، امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :
“وعششت حمامتان علی باب الغار”. (إمتاع الأسماع :۱/۴۰مطبعة لجنة التالیف والترجمة)
دو کبوتروں نے غار کے آگے گھونسلہ بنایا ۔
چوتھی بات :سانپ کا ڈسنا :
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سانپ کے ڈسنے کا واقعہ امام بیہقی رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے

اس کے علاوہ سائل نے یہ بات پوچھی ہےکہ :”یہ انڈے دینے کا واقعہ اچانک ہوگیا تھا یا پہلے سے گھونسلہ بنا رکھا”؟ اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس طرح کی مدد ونصرت کا ہونا ظاہر ہے ایک غیبی معاملہ ہے اور اس میں ظاہری اسباب کو نہیں دیکھا جاتا ہے، انڈے دینے والا واقعہ تو ہمیں نہیں مل سکا ہے، لیکن مکڑی کا جالا تننا اور کبوتر کا گھونسلہ بنانا اور پھر غار کے دہانے ایسی جگہ کھڑا ہونا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئیں

یہ سارے واقعات کا تعلق بھی عام معاملات سے نہیں ہے، اسی لیے جن روایات میں ان کا تذکرہ ہے اس میں اس بات کے ساتھ “أمر الله” اللہ کے حکم سے،کے الفاظ بھی ہیں کہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا، یہ عام اتفاقات نہیں تھے، اگر انڈہ دینے کا واقعہ درست بھی ہو تو ممکن ہے کہ وہ بھی اللہ کے حکم سے ہو اور اسی وقت یہ معاملہ ہوجائے اس کا عقل میں آنا ضروری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کامل قدرت والے ہیں، جب باقی کام خلافِ عادت کرسکتے ہیں تو انڈے دینے والا واقعہ خلاف عادت کیوں نہیں ہوسکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں