پاکستان میں صحافت بھی '' کورونا وائرس '' کا شکارپاکستانی میڈیا انڈسٹری تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار 159

پاکستان میں صحافت بھی ” کورونا وائرس ” کا شکارپاکستانی میڈیا انڈسٹری تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار

پاکستان میں صحافت بھی ” کورونا وائرس ” کا شکارپاکستانی میڈیا انڈسٹری تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار

شکیلہ جلیل
[email protected]
خالی جیب ،ہاتھ میں ڈائری اور قلم سنبھالے ذہن سوچوں کے دبائو سے بھاری ،مگر دل میں ایک عزم لئے مفاد عامہ کی صحافت کرتے صحافی پہلے ہی معاشی دبائو کا شکار تھے ،ایسے میں کوویڈ 19نے انہیں مزید بدحال کر دیا،ایک طرف کوویڈ کی وجہ سے گزشتہ سال فروری سے تادم تحریر بہت سارے اداروں نے کئی صحافیوں کو انکی نوکریوں سے یہ کہہ کر بر خاست کردیا کہ اب انکی ضرورت نہیں تو بہت سے صحافیوں کو کوویڈ کے باوجود اسائمنٹ پر بھیجاگیا کہ خبر لانا تو صحافی کا کام ہے ،خبر نہیں آئے گی تو اخبار کیسے پرنٹ ہو گا ؟چینل کیسے چلے گا ؟

جب صحافت کے پر خطر راستے پر قدم رکھا تو اپنے سینئرز سے ہمیشہ کہتے سنا کہ خبر کی تلاش میں خود کو خبر بننے سے بچائو ،مگر ہم نے دیکھا کہ کوویڈ 19نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں پاکستان میں بھی اسکی تباہ کاریاں کم نہیں۔ یہ اور بات کہ دنیا کی نسبت پاکستان میں کوویڈ سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آیا ۔لیکن اگر پاکستانی میڈیا انڈسٹری کی بات کی جا ئے تو کوویڈ 19نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو جو پہلے ہی معاشی بحران کا شکار تھی اسے مزید بحران سے دوچار کر دیا ،اور بہت سے صحافی کرونا کی خبر کی تلاش میں خود کرونا کا شکار ہو گئے ۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2020سے مئی2020تک 159صحافیوں کے کرونا ٹیسٹ پازیٹو آئے ،اور 3صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ویسے تو پاکستانی میڈیا کی تاریخ ظلم وجبر کی داستانوں سے بھری پڑی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ پچھلے دوسال پاکستان کی میڈیاانڈسٹری اور صحافیوں کے لیے بہت تاریک رہے تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔ اخبارات اور ٹی وی چینل دیکھے اور ان دیکھے دبائو اور جبر کا شکار رہے۔ یہ بات بھی کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ عامل پاکستانی صحافی کسی دور میں بھی خوشحال نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہی معاشی مسائل کا سامنا رہا

مگر جس طرح سے گذشتہ دو سالوں میںصحافیوںکا معاشی قتل کیا گیا ،ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے دو سالوں میں تقریبا آٹھ ہزار سے دس ہزار کے قریب میڈیاپرسنز بیروزگار ہوئے۔ کوئی ایک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ادارہ ایسا نہیں جس نے کارکنوں کو برطرف نہ کیا ہو یا ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں نہ کی ہوں۔ پاکستان میں ایک دو کے علاوہ شاید ہی کوئی ٹی وی یا اخبار ہو جہاں تین یا چار ماہ کی تنخواہ روکی نہ گئی ہو۔زیادہ تر میڈیا گروپوں نے جون 2018 میں اپنے ملازمین کو بقایا تنخواہوں کی آخری حد تک ادائیگی کی تھی

جب انہیں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔لیکن ابھی بھی مختلف اداروں میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی چار چار ماہ اور کئی اداروں میں تو آٹھ ماہ تک کی سیلری دینا باقی ہے ۔کرونا وبا کے دن تو جیسے صحافیوں پر قہر بن کر ٹوٹے ،اس وقت پاکستان میں صحافت کرونا وائرس کا شکار ہے،پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں ڈائون سائزنگ کا رواج بہت پرانا ہے لیکن اس طرح کے حالات کا سامنا کسی دور میں نہیں رہا ،پہلے ایک ادارے سے نوکری سے فراغت کے بعد دوسرے ادارے میں نوکری ملنے کی امید برقرار رہتی تھی مگر اب وہ حالات بھی نہیں رہے

۔ایک صحافی نے گفتگو کے دوران کہا کہ مجھے میڈیا میں کام کرتے پندرہ سال ہوگئے اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ ڈاون سائزنگ کے نام پر نوکری گئی لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ مجھے اب نوکری ملنے کی امید نہیں ہے۔ اتنے برے حالات پہلے کبھی نہیں تھے۔ بچوں کی فیسیں ،گھرکا کرایہ، کچن کا خرچہ یہ سب کیسے ہو گا ،کچھ سمجھ نہیں آتا ۔مجھے کوئی اور کام آتا نہیں اوراب میڈیا میں میرے لیے کوئی کام نہیں ۔زندگی کیسے گزرے گی یہی بات پریشان کئے ہو ئے ہے ۔صحافت میرا جنون رہی ہے مگر جنون سے پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی بیوی بچوں کی ضروریات پوری ہو تی ہیں

۔جو نکالے گئے وہ تو پریشان ہیں ہی جو نوکری پر موجود ہیں ان کاکوئی پرسان حال نہیں ،صحافیوں کو ان کے مالکان نے انہیں ایک طرف حفاظت کی وجہ سے گھر سے کام کرنے کا کہا ہے اور دوسری طرف بیرونی سرگرمیوں کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے تنخواہوں میں بھی کمی کی کردی اور ساتھ ہی سفری الائونس بھی کم کردیئے ہیں۔ بہت سے اداروں میں تو تنخواہ میں 50فیصد کا کٹ لگایا گیا جس سے صحافیوں کیلئے اپنی ذمہ داریوں اور گھریلو معاملات چلانا بہت مشکل ہو گیا ۔اسی سال جنوری میں کیپٹل ٹی وی کے کیمرہ مین فیاض علی دل کا دورہ پڑنیکی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے

۔ ان کو ادارے نے نو ماہ سے تنخواہ نہیں دی تھی۔ ان کے گھر والوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے مطابق تنخواہ کے نہ ملنے کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دبائو کا شکار تھے۔ ان حالات میں بھی وہ کام پر جاتے رہے اور یہی ان کی موت کی وجہ بنی۔ فیاض علی کی موت نے صحافیوں اور صحافی تنظیموں کو وقتی طور پر یکجا کر دیا اورایسا لگا کہ اس بار صحافی اپنے معاشی قتل کے خلاف محاذ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پورے ملک میں احتجاجی کیمپ لگے اور صحافیوں نے معاشی قتل کے خلاف آواز بلند کی لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ احتجاجی تحریک بھی دم توڑ گئی۔اور اب پھر وہی حالات ،وہی نوکری سے نکالے جانا، وہی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر۔ایک طرف صحافیوں کا معاشی قتل اور دوسری طرف مالکان کا کہنا ہے

کہ سرکاری اشتہارات میں کمی ، بلوں کی عدم ادائیگی جس نے ان کے مالی وسائل کو تنگ کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں ،پھر کرونا کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ،کرونا اور لاک ڈائون کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو جانے سے پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہیں ،کاغذ سمیت پرنٹنگ مہنگی ہو گئی ہے ،ایسے میں ادارے کو بچانے کیلئے ادارے میں ورکرز کا بوجھ کم کرنا ان کی مجبوری ہے ۔کرونا کی وبا ہو ،یا مالی مسائل یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی میڈیا انڈسٹری سکڑتی جا رہی ہے

ایک طرف زیادہ تر اخباروں نے اپنے صفحات کم کر دئیے ہیں۔ اور بہت سے ٹی وی چینل نے اپنے بیورو آفس بند کر دئیے ہیں ۔یہ وجوہات اپنی جگہ حقیقت رکھتے ہیں لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت اور ریاست دونوں میڈیا کی تباہی کی ذمہ دار ہیں اور دنوں نے مل کر میڈیا کا گلا گھوٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ان سارے مسائل کے ساتھ ساتھ میڈیا کا ایک نیا مستقبل بھی ابھرتا نظر آ رہا ہے جسے ڈیجیٹل میڈیا کا نام دیا جا رہا ہے

اور کوویڈ 19کے دنوں میں اسے مزید تقویت ملی ہے ۔اگرچہ پہلے بھی آن لائن جرنلز کی باتیں زبان زد عام تھیں مگرکوویڈ 19 نے میڈیا ڈیجیٹلائزیشن کے اس عمل کومزید متحرک کیا ہے،کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یوٹیوب چینلز اور مختلف قسم کے آن لائن اخبارات چلا رہے ہیں مگر ان میں پروفیشنل ازم کی کمی نظر آتی ہے ،یہاں پر ملک کے مختلف پریس کلب اور یونین کا کردار اہم ہو جا تا ہے کہ اگر وہ اپنے صحافیوں اور میڈیا کو بچانے کیلئے واقعی مخلص ہیں تو کم از کم انہیں اپنے صحافیوں کی ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے کہ جو بے روزگار صحافی ہیں وہ کس طرح سے ڈیجیٹل میڈیا سے مستفید ہو کر اپنی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں ،ڈیجیٹل میڈیا ٹریننگ کے ذریعے سے صحافیوں کیلئے ایک نئی مارکیٹ متعارف کرانے کا یہی وقت ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں