عورت کا عظیم احسان جو مرد کبھی نہیں چکا سکتا
تحریر از قلم
چوہدری محمد عدنان سعید
(کالم نگار)
عورت کا عظیم احسان جو مرد کبھی نہیں چکا سکتا
جو عورت اپنا وجود کاٹ کر آپکے نام کو نئے نام سے جنم دیتی ہو اسکا اتنا سا حق تو بنتا ہے کو آپ اسے پرسکون رہنے دیں۔
کیونکہ جس حالت میں وہ خود ہوگی اسی حالت میں نئی جان بنے گی۔نا یقین آۓ تو آزما کے دیکھ لیں ۔
آپ بیوی کو حالت حمل میں رلاتے رہیں بچہ بھی اسی رونے دھونے والی نیچر کا ہوگا۔
ماں خوش ہوگی تو بچہ بھی ہنس مکھ ہوگا۔
ماں کے ساتھ بداخلاقی برتی جائے گی تو وہ بچوں کو بھی غصے سے ٹریٹ کرے گی۔
ساری دنیا سمجھ گئ لیکن ہم مسلمانوں کو اپنی نسل کو بچانا نا آیا۔
جو مرد خود صحمند ہٹے کٹے ہو کر بھی بستر توڑتے ہیں انکو بھی حاملہ عورت کا آرام سے بیٹھنا کھلتا ہے۔آخر یہ جہالت کب جاۓ گی۔
بچہ مادہ کے رحم میں الٹا یعنی سر کے بل لیٹا ہوتا ہے۔مادہ کھڑی یا بیٹھی ہے تو بچہ ہاتھ پاؤں ہلا پاتا ہے۔
جیسے جیسے پریگنینسی کے ہفتے گزرتے جاتےہیں اک ماں کے لیۓ نیچے؛ جھکنا ؛بیٹھنا؛ اٹھنا؛ حتی کہ چلنا ؛پھرنا بھی محال ہو جاتا ہے۔
جتنے بھی ترقی یافتہ مہذب اقوام ہیں وہاں ایسی حالت میں عورت کا خیال رکھا جاتا ہے؛ اسکو حد درجہ ذہنی سکون فراہم کیا جاتا ہے ؛کوشش کی جاتی ہے کہ اسکے لباس تبدیل کرنے ؛سیڑھیاں اترنے؛ چڑھنے یا پھر دیگر کاموں میں اسکا شوہر عورت کا ہاتھ بٹاتا ہے۔
اسکا خیال رکھتا ہے
مگر بدقسمتی سے مسلم معاشرے خاص کر بر صغیر میں عورت کو ایسی حالت میں خاص کر بے سکون کیا جاتا ہے۔
اسکاآرام کرنا یا بیٹھنا گھر والوں پہ ناگوار گزرتا ہے۔اسکو اگر ڈسٹرب نا بھی کیاجاۓ تو اپنی زبان سے دکھ دینا کوئی نہیں بھولتا۔مرد اگر خود لے کے کھانا کھا لے گا تو یہ اسکا بیوی پہ احسان عظیم ہوگا جسے بات بات پہ اسکو طعنہ دیا جاۓ گا۔بد اخلاقی تو ہم مسلمانوں پہ ختم ہو چکی ہے۔
حالانکہ مرد پہ فرض ہے بیوی سے نرمی سے پیار سے گفتگو کرنا لیکن یہ نوازش آج کل مرد حضرات بس باہر کی عورتوں کے لیۓ بچا کر رکھتے ہیں۔
زبان کا زہر بیوی پر اگلنا وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ آپکی نسل کو اپنا وجود کھلا رہی ہے۔
عام حالت میں بھی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم ہے پھر ایسی حالت میں اسکے ساتھ سختی سے بات کرنا ۔بات بے بات ذرا ذرا سی چیزکے لیۓ لڑائی جھگڑا کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
اگرآپکو گھر کی چیزیں
(جو موسٹلی ایسے بدمزاج لوگوں کے گھر میں ہوتی ہیں وہ کاٹھ کباڑ پرانی غیر استعمال چیزیں جنکو رکھنے یا نا رکھنے سے کوئی کام نہیں رکتا ان چیزوں پہ تو گناہ کی الگ دفعہ لگتی ہے پھر ان کے لیۓ اپنا اخلاق بگاڑنا کہاں کی عقلمندی ہے۔پھر سو کالڈ جہیز یا گھر کا سجاوٹی سامان ان سب پہ تو ایک الگ آرٹیکل بنتا ہے جو صرف لوگوں کو دکھانے کے لیۓ ساری عمر سنمبھال کے رکھا جاتا ہے”کہ لوگ کیا کہیں گے؟”)
یہ سب مندرجہ بالا چیزیں اپنی شریک حیات سے زیادہ پیاری ہیں تو معذرت کے ساتھ آپ شادی ہی نا کریں بیوی لانے کی ضرورت کیا ہے آپکو ویسے ہی باہر عشق لڑانے ہونگے تو یہ جھنجٹ نا پالیں۔
بچوں کا شوق ہو بھی تو آج کل وہ آرٹیفیشل طریقہ تولید آ چکا ہے اسکے ذریعے لیب سے برینڈ نیو نو مولود بچہ بک کروائیں اسکا رنگ روپ نین نقش بال جنس سب اپنی مرضی کا سیٹ کروائیں اور بیوی کے نام کی بیماری سے جان چھڑائیں۔
میں Bia Suleman المعروف ایمان علی شاہ آج اس بات کی پرذور مزمت کرتی ہوں کہ میرا جسم میری مرضی والی خواتین نے اگر احتجاج کرنا ہی ہے تو ایک حاملہ عورت کے لیۓ کریں یقین کریں آپکو بڑی عزت ملے گی کیونکہ بدقسمتی سے عورت کا یہ احسان جو وہ اسکا بچہ دنیا میں لا کے کرتی ہے وہ مرد کبھی نہیں اتار سکتا”
بلکہ کہا جاتا ہے سب عورتیں اسی لیۓ بنی ہیں”۔اور مرد مانے یا نا مانے یہ اسکا احسان ہے کہ وہ آپکے بچے کی ماں بن رہی ہے۔ورنہ آنکھوں دیکھے واقعات ہیں کہ عورت شارٹ کٹ کے طور پر اور دنیا کے طعنوں سے بچنے کے لیۓ کچھ شیطان صفت مردوں کے ہاتھوں کھلونا بن کے انکو خوش کرتی ہے اور اپنی ممتا کی تسکین کے لیۓ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے۔خدا کی قسم مرد پہچان بھی نہیں پاۓ گا کہ یہ بچہ اسکا نہیں ہے۔
اس لیۓ خدارا اگر آپکو بیوی جیسی نعمت ملی ہے تو اسکی قدر کریں۔یقین کریں وہ اللہ کی بندی آپکے ڈالے ہوۓ روٹی کے دو ٹکڑوں پہ بھی قناعت کر لے گی اگر آپ اسکو عزت اور نرمی سے رکھیں گے۔بیوی رکھنے کا شوق ہے تو اس پہ خرچ کرنا آپکا فرض ہے
جیسے اولاد کے لیۓ ماں انمول ہوتی ہے ۔ویسے بیوی بھی آپکے بچوں کی ماں ہی ہے۔اپنی ماں کی جگہ نا دیں جو کہ آپ دے بھی نہیں سکتے مگر اپنے بچوں کی ماں کی جگہ تو دیں۔اگر یہ بھی نا ہو تو پھر اسکو چھوڑ دیں بچوں کا خرچ الگ دیتے رہیں یہ بھی نا ہو تو بچوں کا حق اسکو دے دیں.مگر اس پہ اپنا غصہ اور تھکن اتارنے کا آپکو کوئی حق نہیں ہے۔خدا کی قسم وہ اگر انکو دنیا میں لانے کے لیۓ اگر اپنا جسم کھلا سکتی ہے تو اپنی جان اور خواہشات کو مار کر انکو پال بھی سکتی ہے۔
ماں تجھے سلام۔….تو نا ہوتی تو میں بھی نا ہوتا۔ماں کی عظمت کو سلام تمام مشکلات کے باوجود اپنی اولاد کی بہترین تربیت کے لیے ہر مشکل سے مقابلہ کرتی ہے ۔ ماں کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔