چوک اعظم تحصیل بناؤ تحریک اوربانی مرزا رضوان بیگ 302

عادل زمان۔ ایک سچا اور کھرا تخلیق کار ہے

عادل زمان۔ ایک سچا اور کھرا تخلیق کار ہے

تحریر : شہزادافق

عادل زمان خان ایک ایسا نایاب نگینہ ہے جس کی قدر صرف قدردان ہی جانتے ہیں ۔عادل زمان ادبی افق کاایک ممتاز شاعر اورادیب ہے ۔ان کی علمی و ادبی اورشخصیت کی تعارف کی محتاج نہیں ۔انہوں نے اپنی مٹی ،ثقافت ،اسلام،اخلاقیات اورکلچر پربہت کچھ لکھا ان کی شاعری ،تجزیہ نگاری اورتحریریںادبی سرمایہ ہیں ۔ ان کی بے لاگ شخصیت کوقطعی طور نظرانداز کرنا ایک احمقانہ فیصلہ ہوگا۔۔
المختصر کہ ان کا تعارف عادل زمان خان صاحب کا تعلق ایبٹ آباد ہے ،عادل زمان اعلی تعلیم یافتہ انسان ہیں۔اوران کا شمار حقیقت پسندادیبوں میںہوتاہے ان کے الفاظ کی خوشبوقاری کے دل ودماغ پراپنے نقش ضرور چھوڑتی ہے ۔عادل زمان کی پانج کتابیں اشاعت ہوچکی ہیں جن میںحضرت آدم ؑ ،حضرت ابراہیمؑ،حضرت یونس ؑ/حضرت عزیرؑ اورایک ناولٹ ــ”دوہری عورت”اورایک کتاب شاعری پرمشتمل ”رقص ِدرویش شامل ہیں اور مزید کچھ کتابیں زیراشاعت ہیں۔

مذہبی تینوں کتابوں میں اس قدر تسلسل برقرار رہتاہے کہ پڑھنے والا جب ایک بار شروع کرلے تواسے مکمل کئے بناچھوڑتا نہیں۔ عادل زما ن کی حضرت آدم ؑ ،حضرت ابراہیمؑ،حضرت یونس ؑ/حضرت عزیرؑ یہ تینوں کتابیں اس ترتیب سے لکھی گئی ہیں۔ سیر کیلئے آنے والے چند نوجوانوں کوایک بزرگ سردی کی رات میں آگ کے اردگرد بیٹھ کر قصہ سناتا ہے

اور اس سنتے سنتے نوجوانوں کے دل کئی سوالات جنم لیتے ہیں اس سوالات کے ساتھ ساتھ بزرگ پوچھنے پرپراعتماد اورتسلی بخش جواب دیتا ہے۔عادل زمان صاحب کی ہر تحریرانتہائی سادہ ،عام فہیم اورسچے جذبوں کی ترجمان ہے۔عادل زمان ایک انمول نگینہ ہے ان کے الفاظ پڑھنے والوں پر سحر طاری کردیتے ہیں ان کی گفتگو میں اس قدر شائستگی ہے ۔
کہ سننے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی گفتگو کی طویل تر طویل ہوتی جائے اور بس ان کو سنتا ہی جائے ۔ان کی کتب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح عیاں ہوجاتی کہ عادل زمان روایتی ادیب نہیں ہے ۔انکی سوچ معاشرے کی عکاسی کرتی ہے ۔وہ غیرضروری الفاط سے گریز کرتے ہیں اور انتشار پسند الفاظ کا چناؤ نہیں کرتے ۔اسلام پر بے جا تنقید کرنے والوں کو باخوبی جواب دینا جانتے ہیں۔اورعادل زمان کی تخلیق امید سحر کی جانب اشارہ کرتی ہے

۔اگر عادل زمان کی شاعری کے بارے ذکر کیا جائے تو فکروفن اورعلم وادب کے دستور کے مطابق انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ان کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے وہ حقیقی دنیا میں ہے۔اورجو واقعات وحادثات اس کے سامنے پیش کئے جارہے ہیں وہ حقیقت پرمبنی ہیں۔تصنع ،بناوٹ اورنمائش کاشائبہ تک نہیں بات کہنے کااپناایک انداز ہوتا ہے۔لیکن جوبھی بات کی جائے وہ پڑھنے یاسننے والے کی دل میںاتر جائے ۔
ایک اچھے شاعر ادیب تخلیق کار میں جو خوبیاں ہونا ضروری سمجھی جاتی ہیں۔اوران سب خوبیوں سے رب کائنات نے عادل زمان کونوازرکھا ہے۔
اب اگر بات کی جائے ان کی ناولٹ ”دوہری عورت”کی تواس قدر گہرائی میں لکھاگیا ہے کہ پڑھتے وقت اس قدر اپنائیت سی محسوس ہوتی جیسے کوئی کہانی نہیں آنکھوں دیکھا منظر ہے اور سب کچھ قاری اپنی آنکھ سے دیکھ اورآواز سن رہا ہو۔اور وقت کاپہہ گھوم رہا ہے زندگی ہار جیت ،خوشی غم ،دکھ سکھ ،پانا کھونا
وقت لمحے سال گزر رہے ہوجیسے اورایسا محسوس ہوتا ہے۔جیسے رفتہ رفتہ زندگی ان سب مراحل کو طے کررہی ہو۔

قاری زندگی کے وہ تمام نشیب وفراز سے گزر ہورہا ہو ۔اور زندگی کی گاڑی اس مقام پر لے جاتی جہاں یقین نہیں آتا کہانی کاکردار واپس آنا چاہتا ہے جہاں وہ اپنی گزری زندگی کو سوچ کر لوٹنا چاہتا ہے مگر ناجانے انسان کیوں بھول جاتا ہے کہ زندگی کو خوشی اور غم نام کے دومیناروں نے تھام رکھا ہے۔ ناجانے کیوں انسان بھول جاتا ہے کہ بوڑھاپے کے راستے پر چلنے کے بعد انسان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے جوانی کاراستہ بند کردیا جاتا ہے۔عادل زمان سادگی اور خاموشی سے دل کی بات کولفظوں کازیور پہنادیتاہے۔عادل زمان ایک سچا اور کھرا تخلیق کار ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں