سندھ کے جزائر پر نئے شہر بسانے کا منصوبہ اور قوم پرستوں کا گمراہ کن پروپگنڈہ 322

سندھ کے جزائر پر نئے شہر بسانے کا منصوبہ اور قوم پرستوں کا گمراہ کن پروپگنڈہ

سندھ کے جزائر پر نئے شہر بسانے کا منصوبہ اور قوم پرستوں کا گمراہ کن پروپگنڈہ

تحریر۔ محمود مولوی
مشیر برائے وفاقی وزارت برائے ساحلی امور

بڈو اور بڈال کراچی کے اہم ساحلی جزائر ہیں جن پر جدید شہر بسانے کا صدارتی آرڈیننس منظور ہو چکا ہے۔صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 ء دو ستمبر2020 کو جاری کیا گیا اورسرکاری گزیٹ میں شامل کیا گیا ۔25 صفحات پر مشتمل اس آرڈ یننس کے مطابق بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود جزائر کی ترقی کے لیے ایک پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کردی گئی ہے۔وفاقی حکومت ملک کی ساحلی پٹی (سندھ اور بلوچستان) پر موجو د ان تمام غیر آباد جزائر پر جدید شہر بسانا چاہتی ہے تاکہ نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ملک میں آسکے بلکہ مقامی لوگ بھی خوش حال بھی ہو سکیں ۔

صدارتی آرڈیننس کے مطابق بڈو اور بڈال (جنہیں مقامی زبان میںبھنڈر اور ڈنگی کہا جاتا ہے )سمیت بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود تمام جزائر اب وفاق کی ملکیت ہیں اور انہیں شیڈول ون میں رکھا گیا ہے۔

آرڈیننس میں پانی کی حدود کے حوالے سے ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ساحل سے سمندر کے اندر 12 ناٹیکل میل تک کا حصہ اب اتھارٹی کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔

آرڈیننس کے مطابق اس اتھارٹی کا دفتر کراچی میں اور اس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان خود ہوں گے۔اتھارٹی کو دیے گئے اختیارات کے مطابق یہ اتھارٹی ان جزائر کی زمین کو منتقل، استعمال، ٹیکس کی وصولی اوران زمینوں کی فروخت کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ آرڈیننس کی شق نمبر49 کے مطابق اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا سکے گا

سندھ کی ساحلی پٹی پر چھوٹے بڑے تقریباًتین سو جزائر موجود ہیں۔چرنا اور بڈو جزائر بنڈل کے قریب ہیں۔ کراچی کی ساحلی آبادی ابراہیم حیدری سے بڈال جزیرے کا سفر پینتالیس منٹ میں طے ہوتا ہے۔وفاقی حکومت نے یہاں میگا سٹی منصوبے اور اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تو کیا ہے۔

بڈو اور بڈال جزائر پر آبادی کا نام و نشان نہیں۔یہاں صرف چند جھونپڑیاں ہیں جن میں ماہی گیر اپنے جالوں کی مرمت وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔بڈو اوربڈال12,000 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے ۔اس جزیرے کے اطراف سمندر کا پانی انتہائی شفاف اور نیلگوں ہے۔کناروں پر ہزاروں ایکڑ پر لگے ہوئے تیمر(مینگرووز) کے جنگلات اس جزیرے کی پہلی فصیل معلوم ہوتے ہیں، انسانی آبادی نہ ہونے کے سبب یہاں آلودگی کا بھی دور دور تک نام و نشان نہیں، اسی لیے سمندری پرندے بھی آزادانہ طور پر منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ جزیرے پر ہر طرف نرم ریت نظر آتی ہے۔یہ جزائر ماحولیاتی وسائل سے مالامال ہیں۔ان جزیروں پر 3,349 ہیکٹر کے وسیع رقبے پر تیمر کے جنگلات موجود ہیں اور یہاں جھینگوں اور مچھلیوں سمیت سمندری حیات کی تمام رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔یہ جزائر50 سے زائد پودوں کی انواع، دنیا کے نایاب سمندری کچھوے، سمندری سانپ، 50 سے زیادہ پرندوں کی مقامی انواع اور ہزاروں سرمائی پرندوں کا مسکن ہیں۔کراچی میں ان دنوں چرنا جزیرہ سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کی وجہ سے مقبول ہے۔

گل حسن کے مطابق یہ جزیرہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری سرحد ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک پہاڑ ہے جس پر انسانی آبادی نہیں ہے۔ حب ندی سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ جزیرہ 1.2 کلومیٹر لمبا اور نصف کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہاں مچھلیوں کی مختلف اقسام سمیت سبز کچھوے بھی پائے جاتے ہیں۔ چرنا کے قریب ماہی گیروں کے تین گاؤں ہیں
اہم بات یہ بھی ہے کہ بڈال اور بڈو جزیرے انڈس ڈیلٹا کا حصہ ہیں اور انڈس ڈیلٹا بین الاقوامی تحفظ یافتہ رامسر سائٹ میں شامل ہے اور پاکستان رامسر کنونشن کا توثیق کنندہ ہے جس کی رو سے ان آب گاہوں کے ماحولیاتی وسائل کا ہرممکن تحفظ ضروری ہے۔جس علاقے میںدریا کا میٹھا پانی سمندرکے کھارے پانی میں ملتا ہے اس۔ ڈیلٹاکہتے ہیں جو ندی آگے چل کرکسی دوسری ندی میں گرے تو اس کو ندی کا ’’چھوڑ یا چھوڑ کرنے والی ندی‘‘ کہا جاتا ہے۔

سندھ کے دریائی نظام میں بائیں جانب سے جہلم‘ چناب‘ راوی‘ ستلج اور بیاس والی پانچ ندیاں ملتی ہیں۔ سندھ کا آخری ڈیلٹائی علاقہ سترہ کریکس پرمشتمل ہے جس کی شکل ہاتھ والے پنکھے جیسی ہے ۔یہ سندھ کاایک وسیع علاقہ ہے جو کراچی سے رن کچھ تک 52 ہزار 800 مربع کلو میٹرتک پھیلا ہوا ہے‘ یہ دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی چوڑائی 150 کلو میٹراور کل رقبہ 6 لاکھ ہیکڑ ہے۔ تیمرکے 97 فیصد جنگلات اس ڈیلٹا میں موجود ہیں۔ جن کا صرف ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا ہے۔ دریائے سندھ تازے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تازے پانی کا مسلسل بہائو سمندری اور نباتاتی اچھی صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔ گزشتہ 50 برسوں میں انڈس ڈیلٹا میں تازے پانی کابہائو 14 کروڑ ایکڑ فٹ سے کم ہو کر صرف 4 ایکڑ فٹ رہ گیا ہے۔ اوپر سے دریائے سندھ سے آنے والی تہہ نشین مٹی کی مقدار بھی کافی کم ہوچکی ہے۔ صنعتی فضلے کے باعث ڈیلٹا کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے جس سے تیمر کے جنگلات اور مچھلیوں کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔

چار اہم کریکس ہیں جو آگے چل کر مزید چھوٹی چھوٹی کریکس میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ دریائے سندھ کازیادہ پانی سمندرمیں گرنے کی و جہ سے تیمر کے ہرے بھرے جنگلات بھی متاثر ہوئے۔ مچھلی کی 300 سے زائد اقسام کی سالانہ پیداوار نہ صرف ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتی تھی‘ بلکہ سالانہ لاکھوں ڈالر زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا تھا۔ سندھ کی سوغات پلا مچھلی اور جھینگا انڈس ڈیلٹا کا خزانہ سمجھا جاتا تھا۔ قدرت کی اس مہربانی کودیکھتے ہوئے دور درازسے لوگ روزگار اورکاروبار کے لئے یہاں آتے گئے‘ جس سے ڈیلٹائی علاقے میں شہر اور بستیاں آباد ہوئیں۔ تاریخی شہر ٹھٹھہ کاروباری لحاظ سے یہاں کا مرکز بنا۔ شاہ بندر اور کیٹی بندر جیسی بندرگاہیں آباد ہوئیں۔ ہے۔ ڈیلٹائی علاقے میں لاکھوں لوگ آباد ہیں

۔ مچھلی کا شکارکرنا‘ دکانداری‘ زراعت یا چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنا ان کا ذریعہ معاش ہے۔ انڈس ڈیلٹا کے جزیرے جو کھاروچان سے نیچے جامڑو‘ کھوبرا اور دریائے سندھ کے اصل بہائو کے درمیان ہیں۔ ڈیلٹائی علاقے میں تیمر کے جنگلات مچھلی‘ چھینگے اور کیکڑے پالنے کے قدرتی مراکز ہیں۔بڈال جزیرے پر معروف مسلمان صوفی یوسف شاہ کا مزار موجود ہے۔ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر ہزاروں افراد یوسف شاہ کے سالانہ عرس پر یہاں آتے ہیں۔عرس کے دوران یہ جزیرہ ایک شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔ ماہی گیر مختلف اشیا کے اسٹال لگاتے ہیں۔ ماہی گیر خواتین بھی اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی اشیا فروخت کرتی ہیں۔

دنیا بھر میں غیر آباد جزیروں کو آباد کرنے کے لئے بھر پور منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔اس کی مثال دبئی ہے ۔ جسے آباد کر کے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جا رہے ہیں۔ سندھ کے ان جزائر پر جدید شہر بسانے کا خیال وفاق کو یکایک نہیں آیا۔ان جزیروں کا تذکرہ سب سے پہلے 2006 ء میں میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا جب اْس وقت کی حکومت ان جزیروں پر دنیا کے جدید شہر بسانا چاہتی تھی اور اس کے لیے اس نے متحدہ عرب امارات کے ایک تعمیراتی گروپ سے رابطہ کر کے اسے کثیر سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرلیاتھا۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی ان جزائر کو آباد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔2012ء میں بھی یہاں سرمایہ کاری کی کوشش کی گئی۔اْس وقت کے وفاقی وزیر برائے جہاز رانی اور بندرگاہ نے کہا تھا

کہ سمندر میں موجود جزائر پر شہر آباد کرنے کے لیے وفاقی حکومت بنیادی سروے کا کام مکمل کرچکی ہے، نئے شہر کا ماسٹر پلان بن چکا ہے اور اس نئے شہر کی آباد کاری کے لیے ایک درجن سے زائد اعلی سطح کے اجلاس کیے جاچکے ہیں۔ اس منصوبے کا مین سٹیک ہولدڑ کراچی پورٹ ٹرسٹ ہے لیکن ملک میں سیاسی مسائل نے مشرف حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ منصوبہ کاغذوں میں دب گیا۔ان جزائر پر شہروں کی تعمیر کے تنازع نے 2013 ء میں سر اٹھایا۔ اس وقت بھی وفاقی حکومت یہاں کثیر سرمایہ کاری کرنا چاہ رہی تھی

اور اس حوالے سے 45 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہونے جارہا تھا۔اس بار یہ معاہدہ پاکستان کے تعمیراتی شعبے سے وابستہ ایک مشہور شخصیت سے کیا جارہا تھا جو متحدہ عرب امارات کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر یہاں جدید عمارات کی تعمیر کرنا چاہ رہے تھے لیکن سول سوسائٹی اور صوبائی حکومت کی جانب سے آنے والے دباؤ کے باعث یہ جزائر ایک بار پھر اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ کراچی کے قریب واقع بڈال اور بڈو جزیرے پر وفاقی حکومت شہر تعمیر کرنا چاہتی ہے جب کہ سندھ کی حکومت اور بعض قوم پرست سیاسی جماعتیں اس کی

مخالف ہیں۔ان کا پروپیگنڈا ہے کہ وفاقی حکومت نے سندھ کی رائے لئے بغیر اور قومی اسمبلی کو پاس کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی قائم کر کے ان جزیروں کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی ہے۔پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی یہاں تعمیرات کرے گی۔صوبہ سندھ میں اس آرڈیننس پرشدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔قوم پرست جماعتیں ہمیشہ سے پاکستان کی ترقی کے خلاف ہیں وہ صوبوں کو پسماندہ کر کے محرومی کے نام پر اپنی سیاہ ست چمکانا چاہتی ہیں

۔صدیوں سے غیر آبادبڈال اور بڈو جزائر پر شہروں کی تعمیر کا منصوبہ قابل تعریف اور وقت کی ضرورت ہے۔چار ہزار ایکڑ رقبے پر محیط بڈال پر تعمیراتی کاموں کا آغاز ہے۔ان جزائر پر شہروں کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے سیاست دان اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتے ہیں ۔انہیں اس سے گریز کر کے ان جزائر کی خوشحالی میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے۔ ۔ان جزائر پر شہروں کی تعمیر سے یقیناً پاکستان کی ترقی کی راہیں کھلیں گی اور عالمی سطح پر پاکستان کا سافٹ امیج ابھرے گا۔پاکستان کی تعمیر اور ترقی کا منصوبہ کسی بھی مقام پر ہو اس پر ننقید اور احتجاج کرنے کی بجائے اس کا کامیابی کے لئے ساتھ دینا چاہیئے۔لھذا ماہی گیروں کو اعتماد میں لے کر انہیں بتائیں کہ ان شہروں کی تعمیر سے آپ کو بھی فائدہ پہنچے گا اور آپ کا روز گار متاثر نہیں ہو گا۔ بنڈال اور بڈو جزائر پر شہروں کی تعمیر سے جزائر کی تاریخ میں سنہری دور کا اضافہ ہو گا اور ماہی گیروں کی قسمت بھی بدلے گی ۔انشا اللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں