74

“ شہر اقبال سیالکوٹ کی نوجوان لکھاری کومل شہزادی کے ساتھ خصوصی گفتگو

“ شہر اقبال سیالکوٹ کی نوجوان لکھاری کومل شہزادی کے ساتھ خصوصی گفتگو

انٹرویو : سید فیضان عباس نقوی
مہمان: کومل شہزادی
کالم نگار،افسانہ نگار اورسکالر کومل شہزادی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تحقیقی مضامین اور کالم نگاری سے کیا۔ تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔اور کالم مختلف قومی اخبارات میں چھپ چکے اور مزید شائع ہورہے ہیں۔اردو افسانے مختلف ڈائجسٹ میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔کالم نگاری سے شروع ہونے والا ادبی سفر اب فکشن لکھنے تک آپہنچا ہے جو جاری وساری ہے

۔بہت سی ادبی تنظیموں سے منسلک ہیں۔ماہنامہ گوہر نایاب ڈائجسٹ کی سلسلہ انچارچ بھی رہ چکی ہیں۔سیالکوٹ سے نکلنے والے ادبی جریدہ نقش فریادی ) کی ایڈیٹر بھی ہیں ۔سوال : سب سے پہلے اپنا تعارف کروادیں ، مکمل نام ، علاقہ ، تعلیم ،شوق وغیرہ
میرا قلمی نام بھی کومل شہزادی ہی ہے۔شہر سیالکوٹ کی سرزمین جہاں کئیں ادبی شخصیات نے جنم لیا اور اپنی علمی وادبی خدمات کا لوہا منوایامیرا تعلق بھی اسی شہر اقبال سے ہے۔میں ایم ۔اے ایم ایس سی بی ایڈ کرچکی ہوں اور پی ایچ ڈی اسکالر ہوں۔مجھے کتب بینی کا اشتیاق اور ادبی سرگرمیوں کی جانب اپنی ذات کو مائل رکھنا میرا اولین شوق ہے۔
سوال : وہ کیا چیز تھی جس نے آپ کو ایک لکھاری بنا دیا ؟
مجھے لکھنے کا اشتیاق تو کالج کے زمانے سے تھا لیکن لکھاری بھی وہی بن سکتا جو حساسیت رکھتا ہو جسے اپنے اردگرد ماحول میں تکلیف دہ حالات دیکھ دیکھ کر وہ اس اذیت سے اپنے آپ کو نکالنے کے لیے قلم کااستعمال کرتا ہے۔میراخیال ہے آپ کو اچھا لکھاری تکلیف اور اذیت زدہ ماحول بناتا ہے جسے ہم جینوئن لکھاری کہہ سکتے ہیں۔مجھے لکھاری محض میرے شوق اور حساسیت نے بنایا اوریہ ایک خدادصلاحیت بھی ہے۔س: اردو ادب کے نام پر جو ادب لکھا جا رہا ہے آپ کو نہیں لگتا ایک معیاری ادب تخلیق نہیں ہو رہا ؟ اس کی وجہ ہو سکتی ہے ؟
ایسا بھی نہیں ہے کہ معیاری ادب نہیں لکھا جارہا بلکہ ادب کی ہر صنف میں بہترین لکھنے والے موجود ہیں جو ادب میں کافی پذیرائی بھی حاصل کرچکے ہیں۔دوسرا جو افراد جن کا فقط مقصد صاحب کتاب ہونا ہے وہ میراخیال انہیں کی وجہ سے معیاری ادب تخلیق نہیں ہوریا جبکہ ہمارے ہاں معیاری ادب لکھنے والی ابھِی بہت شخصیات موجود ہیں جن کو پڑھ کرہم مزید بہتر لکھ سکتے ہیں۔
سوال: اردو کی کس کس صنف میں طبع آزمائی کر چکی ہیں ؟ کس صنف سخن میں خود کو ماہر سمجھتی ہیں یا آپ کی پسندیدہ ہے ؟

میں کالم نگاری جس میں ہر موضوع پر کالم قلمبند کرچکی ہوں جن میں ادبی موجودہ حالات سیاسی وووغیرہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں افسانے لکھے ہیں اور تحقیق وتنقید کی جانب بھی رجحان ہے۔میں ابھی ماہر تو کسی صنف میں نہیں سمجھتی۔یہ تو قاری طے کرتا ہے کہ ہم کتنے ماہر ہیں اور کس صنف میں مہارت سے تحریر کررہے ہیں۔مجھے اصناف نثر میں لکھنا زیادہ پسند ہے۔
س: کیا لکھاری کی شخصیت اور لکھت میں قول وفعل کا تضاد پایا جاتا ہے؟
ج: موجودہ عہد کو دیکھتے ہوئے میرے خیال میں بالکل پایا جاتا ہے۔عمل بہت کم ہے۔قول وفعل میں تضاد معاشرے کا حصہ بن چکا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔س: موجودہ دور کے اہم شعراء جو آپکو بہت پسند ہوں؟ج: مجھے بہت سے شعراء پسند ہیں جن میں امجد اسلام امجد،افتحار عارف،عباس تابش وغیرہ شامل ہیں۔امجد اسلام امجد کا ایک شعر جس نے ان کا کلام پڑھنے پر مجبور کیا:
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا میں تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں س:آپ کے فکشن میں زیادہ تر کن موضوعات پر لکھا گیا ہے؟
ج:میرے افسانوں/شارٹ سٹوریز میں زیادہ تر موضوعات جن پر قلم اٹھاتی ہوں وہ سماجی،مذہبی،ادبی اور اخلاقی اقدار سے روشناس کروانےپر مبنی ہوتے ہیں۔اور میرا پسندیدہ افسانہ ” برہنہ معاشرہ” ہے۔اپنی لکھت تو سب ہی پسند کرتے ہیں کیوں کہ سب ہی کسی نا کسی مقصد کے تحت ہی لکھا جاتا ہے۔بنا مقصد تو کوئی تحریر نہیں لکھی جاتی۔
س: آپ کن موضوعات پر زیادہ تحریر کرنا پسند کرتی ہیں اور کیوں؟
ج: زیادہ تر معاشرتی و سماجی مسائل پر،کیوں کی وجہ یہ کہ لکھنے کا مقصد بھی اصلاح اور شعور ہونا چاہیے جو دوسروں تک convey کرسکیں۔
س:آپ کی بہترین تحریر یا افسانہ جو آپ کا پسندیدہ ہو اور پسند کی وجہ؟
ج: وہ تحاریر اور افسانے جو کسی ایک کے لیے بھی اصلاح کا باعث بن جائے وہی میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہے۔
س:موجودہ دور کے فکشن نگار جن سے آپ متاثر ہیں اور کیوں؟
ج: مرزا اطہر بیگ،عاصم بٹ ،شوکت صدیقی وغیرہ پسندیدہ ہیں کیونکہ ان کی تخلیقات میں معاشرے کی عکاسی ملتی ہیں۔رومانویت کی بجائے معاشرے کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔سماجی ایشو کو ڈسکس خوب کیا گیا ہے۔پسند کی وجہ یہ ہے۔
س:کتاب سے قربت نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ج:کتاب سے قربت شوق کی وجہ سے ہوتی ہے یا آپ کو ماحول اپنے اردگرد ایسا ملے۔دوسرا اس کی بڑی وجہ نئی ٹیکنالوجی ہے جو وقت لوگ اس پر صرف کرتے تھے وہ اب سوشل میڈیا پر کیا جاتاہے۔ لیکن جن کی قربت ہے وہ اس جدید دور میں بھی موجود ہے۔میرا خیال اس سے بہترین آپ کا کوئی رفیق نہیں ہوسکتا۔
س: اردو کے کچھ ادیب حضرات کے نزدیک نسوانیت ہی ادب کا بڑا حصہ ہے نظم ہو یا نثر کوئی بھی تحریر یا شاعری اس میں نسوانیت کا پہلو لازمی دکھائی دیتا ہے ۔آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اردو ادب نسوانیت کے بغیر کچھ نہیں ؟
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اقبال کے اس ایک مصرعے میں اس سوال کو کافی حد تک مکمل کردیا گیا ہے۔مزید برآں کوئی بھی معاشرہ اور ادب تب تک تشکیل نہیں ہوسکتا جب تک اس میں عورت کا کردار نہ ہو۔اصناف سخن ہو یا اصناف نثر ان میں اگر نسوانیت کا تذکرہ نہ ہوتو وہ رنگینی نہیں ملتی۔
ماضی میں جنسیات اور شہوانیات کو بھی اردوادب میں جگہ دی جاتی رہی ہے باقاعدہ جنسی کہانیاں اور ناول بھی لکھے جاتے ہیں کیا اس کو ادب تسلیم کیا جانا چاہیے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
بہت سا فکشن لکھا جارہا ہے جس میں جنسیات بھی ہے اب منٹو کی لکھت کو فحاشی اور جنسیات کہاجاتا رہا جبکہ انہوں نے معاشرے کی حقیقت کو لکھا۔اسی لیے ادب معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اسی لیے لکھاری وہی لکھتا ہے جو وہ معاشرے میں دیکھتا ہے۔
س:آپ نے ادب کے شعبے کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
ج: ادب کا شعبہ اختیار پسندیدگی کے باعث کیا دوسرا حساس لوگ لٹریچر میں ہی پائے جاتے ہیں یہ میری ذاتی رائے ہے غلط بھی ہوسکتی ہے۔ادب نے ہی تو درست معنوں میں زندگی کی گہرائی کا بتایا شعور دیا لوگوں کو پہچاننا سیکھایا تہذیب و آداب سیکھائے۔
س:ادبی دنیا میں مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں۔۔؟
ج:ادبی حوالے سے مستقبل میں مزید لکھنے کا ہی ارادہ ہے جو مزید بہتر سے بہترین لکھنے کی جستجو ہوگی۔اور ایسا کچھ لکھوں گی جو اس دنیا سے رابطہ منقطع ہوجانے کے بعد بھی صدقہ جاریہ بنتا رہے۔باقی اللہ پاک بہتر جانتے ہیں۔
س: اردو ادب کے فروغ اور بقاء کے لئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں
اردوادب کی ہرصنف کے لیے کانفرنسز کا انعقاد کیا جائیں اور اچھا ادب لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔علاوہ ازیں نو آموز لکھاریوں کی اصلاح کے ساتھ سراہا جائے تو اُمید ہے بہترین ادب تخلیق ہوسکے۔
: ماہنامہ نوائے منزل کے قارئین کے لیے کوئی مشورہ یا پیغام؟
اچھا ادب پڑھیں کیونکہ ادب ہی انسان کو شعور اور احساس کرنا سیکھاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں