371

یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اسکے

یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اسکے

بقلم: محمد آصف سلطانی

انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر وہ آزاد کبھی نہیں ہوتا مذہب، وطن، انسانیت سب کی سلامتی اور بقا کا خیال رکھنا اس پہ لازم وملزوم ہوتا ہے وطن سے محبت اور وطن کےلیے دی گئی قربانیوں کا صلہ تو ہر پل دینا ہوتا ہے۔ امن ومحبت قائم کر کے، محنت کر کے، ایمانداری سے، اسے سنوار کر، اسکی بقا کےلیے خالصتاً مخلص و ایماندار حکمران منتخب کر کے، اپنی اولاد کو بس ہرے سفید رنگ سے محبت نا کروایں وطن سے محبت اور آزادی کی قدر سیکھائیں۔

کہتے ہیں کہ “فرد قوم کے مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے” افراد اگر ذمہ دار قانون کی پاسداری کرنے والے اور نرم خو ہوں گے تو قوم بھی تہذیب یافتہ ہوگی “قومیت” ہمارے اتحاد وتنظیم کےلیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ صوبائی، لسانی، اور نسلی تعصبات سے بالاتر ہوکر عدل وبھائی چارہ کا پرچار کرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں پاکستان کی نمائندگی کےلیے ہر اس خالصتاً پاکستانی کو منتخب کرنا چاہیے جو ملک اور قوم کا خیرخواہ ہو اور قوانین کا پابند ہو جو فلسفہ انسانیت کو سمجتھا ہو، بحثیت پاکستانی قوم کے ہر فرد پر یہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو کسی بھی پُرامن معاشرے کے قیام اور فلاح کےلیے ضروری ہیں۔

ایک اچھا شہری علم رکھتا ہے کہ وہ اپنے ملک مذہب، معاشرے اور انسانیت کی بہتری کےلیے اپنا انفرادی کردار کیسے ادا کرسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست کے افراد وحکمران ذمہ دار قومی فرائض سے آگاہ اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوں تاکہ مشکل وقت میں کسی قربانی سے دریغ نا کریں

۔ بطور مسلم و پاکستانی ہمارا اولین فریضہ ہے کہ اپنے نصب العین اور اپنی آئیڈیالوجی کا تحفظ کریں کیونکہ جو قومیں اپنی نظریاتی اساس فراموش کر دیتی ہیں تاریخ کے صفحات میں ان کا قیام عبرت کا ایک قصہ بن جاتا ہے۔ بانی پاکستان نے حصولِ پاکستان کے مقصد کو بڑے واضع الفاظ میں یوں بیان کیا:
“ہم نے پاکستان اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ ہم زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا چاہتے تھے بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ چاہتے تھے جہاں اسلامی اصولوں کو آزما سکیں” پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ملکی آئین کا تحفظ کرے اور آئین بنانے والے بھی خود آئین کی مکمل پاسداری کریں چونکہ نظریہ پاکستان کی اساس اسلام ہے۔ لہذا آئین میں ایسی کوئی شق شامل نا ہو جو اسلامی تعلیمات سے انحراف کرے۔ وطن ہمارا ہے اور ہم نے ہی اسے سنوارنا ہے ہم نے ہی اسے اندھیروں سے نکالنا ہے۔

ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی اس کےلیے ہمیں کرپشن جیسے ناسور کا خاتمہ کرنا ہوگا ہمیں ایسا پاکستان بنانا ہوگا جس میں دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، طاقت کا ناجائز استعمال، عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی نہ ہو جہاں غریب کو اسکا حق ملے جہاں مزدور کو اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ملے۔ اور یاد رکھیئے پاکستان کی بنیاد ہی اسلام ہے اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسلام فرد اور معاشرے دونوں پر یکساں حکم نافذ کرتا ہے۔ اسلام میں سیکولرازم کی کوئی گنجائش نہیں مذہب اور ریاست ایک ہی وحدت ہیں۔
بقول علامہ اقبال:
اسلام کا مذہبی نصب العین اسکے معاشرتی نصب العین سے جو خود اسی کا پیدا کردہ ہے الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کےلیے لازم وملزوم ہیں۔
اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کو ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔ اقبال کی نظر میں اسلام ہی مسلمان کی زندگی ہے۔ کوئی مسلمان اسلام سے باہر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا اقبال کہتے ہیں اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ اسلام تمام نوع انسان کے حقوق کا احترام کرتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں