164

گومل زیم ڈیم کی منصوبہ بندی اور انتظامات بارے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد

گومل زیم ڈیم کی منصوبہ بندی اور انتظامات بارے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد

اسلام آباد( فائزہ شاہ کاظمی بیورو چیف اسلام آباد ) پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر بہت ضروری ہے ۔ ہر سال بہت بڑی مقدار میں ہم پانی کو استعمال میں نہیں لاتے اور وہ سیلاب کی شکل میں تباہی لاتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کے لئے پورے ملک میں تحریک کا آغاز کیا جائے۔





ڈیم کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان جو کردار ادا کر رہی ہے وہ قابل تحسین ہے۔گومل زیم ڈیم خیبر پختونخواہ میں جنوبی وزیر ستان کے علاقے کھجوری کچھ میں قائم کیا گیا ہے جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تقریبا 135کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔




امریکی ادارہ برائے

بین الاقوامی ترقی اور خشک علاقہ جات میں زرعی تحقیق کے بین الاقوامی ادارہ کی جانب سے اسلام آباد میں دو روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔جناب محمد اسرار، سیکریٹری زراعت، خیبر پختونخواہ نے تربیتی ورکشاپ کا افتتاح کیا۔ ورکشاپ کا بنیادی مقصد گومل زیم ڈیم میں واٹر شیڈز (آبگیرہ) کی

منصوبہ بندی اور انتظامات کے حوالے سے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف معاملات کو زیر بحث لانا تھا تاکہ قومی اور بین الاقوامی ماہرین کی آراء کی روشنی میں ایک جامع منصوبہ بندی کی حتمی شکل دی جا سکے ۔ گومل زیم ڈیم کی تعمیر کا بنیادی مقصد سیلابی صورتحال کو کنٹرول کرنا،

پانی کو زرعی رقبہ کی آبپاشی کے لئے استعمال میں لانااور ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تیار کرنا ہے۔ گومل زیم ڈیم ایک قیمتی قومی اثاثہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں خوشحالی کے منصوبہ جات کو




عملی جامہ پہنانا ہے۔ ورکشاپ میں شرکاء میں ڈاکٹر محمد عظیم خان، چیئر مین پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل، ڈاکٹر عبد المجید، کنٹری ہیڈ اکارڈا پاکستان، جناب میلک حیدرا، ڈپٹی ڈائریکٹر ، یو ایس ایڈ، اسلام آباد اور دیگر معزز مہمانان گرامی شامل تھے۔ ڈاکٹر عبد المجید، کنٹری ہیڈ اکارڈا نے

تربیتی ورکشاپ کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ، ڈاکٹر محمد عظیم خان، چیئر مین پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے کہا کہ گومل زیم ڈیم پاکستان کا ایک قیمتی اثاثہ ہے جس سے پاکستان خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو گا نیز اس ورکشاپ کے انعقاد کے ذریعے




ماہرین کی آراء کی روشنی میں جنوبی وزیر ستان کے لوگوں کے علاقائی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈیم کے پانی سے لوگ مستفید ہو سکیں اور اپنی زراعت کو ترقی دے سکیں اور علاقے کے لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ آبگیرہ (watershed) اور بارانی علاقوں میں

ترجیحی بنیادوں پر فروغ دے جدید اور منافع بخش زراعت کے ذریعے نہ صرف غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ان علاقوں میں غربت کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر چیئر مین پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے یو ایس ڈے اے کے بین الااقوامی ادارے کی پاکستان میں زراعت کے لئے کی جانے والی خدمات کو بھی سراہا ۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں