العزیزیہ ریفرنس: واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ کروانے کا سلسلہ جاری 117

العزیزیہ ریفرنس: واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ کروانے کا سلسلہ جاری

العزیزیہ ریفرنس: واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ کروانے کا سلسلہ جاری

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء احتساب عدالت میں پیش ہوگئے، جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔

8 مئی کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے واجد ضیاء کو 10 مئی کو طلب کیا تھا۔

پیشی کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف خصوصی طیارے سے اسلام آباد پہنچے تاہم سماعت میں وقفے کے بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔

سماعت کے دوران واجد ضیاء نے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ 20 اپریل کو وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے طور پر کام کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے گلف اسٹیل ملز کے قیام، فروخت اور واجبات سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔

واجد ضیاء کے مطابق یہ بھی پوچھا گیا کہ سرمایہ قطر سے کس طرح یوکے اور سعودی عرب گیا؟ جبکہ سپریم کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت؟

گواہ واجد ضیاء کے مطابق حسین نواز کے نواز شریف کو کروڑوں روپے کے تحائف سے متعلق بھی سوال کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ لندن فلیٹس اور برطانیہ میں قائم اُس کمپنی سے متعلق سوال بھی پوچھا گیا جو اس ریفرنس سے متعلق نہیں جبکہ انہیں یہ تفتیش بھی کرنی تھی کہ نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں یا کوئی بے نامی دار ہیں۔

واجد ضیاء کے مطابق یہ وہ سوال ہیں جن سے متعلق تفتیش کرنی تھی اور جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کی طرف سے 60 دن میں حتمی رپورٹ دینے کا کہا گیا تھا۔

سماعت میں وقفے کے بعد واجد ضیا نے بیان کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے یو اے ای اور سعودی عرب کو اس کیس سے متعلق ایم ایل ایز بھیجے، جن کا صرف یو اے ای نے جواب دیا جبکہ سعودی عرب سےکوئی جواب نہیں آیا۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواستوں کے تجزیے سے کام شروع کیا اور درخواست گزار کی درخواست اور ملزمان کی متفرق درخواستوں کا جائزہ لیا۔

انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے ریکارڈ اکٹھا کیا اور متعلقہ افراد کے بیانات قلمبند کیے جن میں طارق شفیع، نواز شریف، شہبازشریف، حسن اور حسین نواز کے بیانات شامل ہیں۔

سماعت کے دوران مریم، حسن اور حسین نواز کے سپریم کورٹ میں جمع بیانات عدالتی ریکارڈ میں شامل کرلیے گئے۔

اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ مریم نواز کا نام اس ریفرنس میں شامل نہیں جبکہ حسن اور حسین نواز عدالت میں نہیں، لہذا ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ نہیں بنائے جاسکتے۔

خواجہ حارث اور پراسیکیوٹر نیب کے درمیان گرما گرمی

دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کے درمیان گرما گرمی کی صورتحال بھی دیکھنے میں آئی۔

واجد ضیا کے بیان کے دوران خواجہ حارث کے اعتراضات پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہر فقرے پر اعتراض نہ اٹھائیں، اس طرح چار سو اعتراضات ہو جائیں گے، ہم جواب دیں گے تو بیان بہت لمبا ہوگا، اعتراض لکھ لیں اور بعد میں بحث کرلیں۔

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ میری قانونی ذمہ داری ہے، اعتراض بنتا ہے تو اٹھاؤں گا۔

ساتھ ہی انہوں نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو مخاطب کرکے سوال کیا کہ جج صاحب آپ نے کبھی ایسا ٹرائل کیا جس میں اعتراض بعد میں اٹھایا جائے؟

احتساب عدالت میں واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں مزید ایک ماہ کی توسیع کرتے ہوئے احتساب عدالت کو 9 جون تک کی مہلت دے دی تھی۔

کیس کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کردیا تھا۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے جاچکے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں