"لاش کے ساتھ سحری"جرنلسٹ محیب ترین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔ 258

“لاش کے ساتھ سحری”جرنلسٹ محیب ترین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔

"لاش کے ساتھ سحری"جرنلسٹ محیب ترین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔
"لاش کے ساتھ سحری"جرنلسٹ محیب ترین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔
“لاش کے ساتھ سحری”جرنلسٹ محیب ترین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔

اے سی کی ٹھنڈک میں نرم و گرم بستروں پر لیٹ کر، شاندار سجے آفس میں بیٹھ کر اپنے لیپ ٹاپ، اپنے اینڈرائڈ کی اسکرین پر فوج کو گالیاں دینا، ان پر لطائف بنانا، ان کی قربانیوں کا مضحکہ انگیز تذکرہ کرنا، ان کے کردار کو مشکوک بنانا، ان کے دین و ایمان پر سوال اٹھانا ہاں میرے سائبر وارئیرز یہ کام بہت آسان ہے. دہشت گردی کے پیچھے وردی جیسے جملے لکھنا اور بولنا بہت آسان ہے. فوجی ہمارے نوکر ہیں جیسے الفاظ کہنا بہت ہی آسانی والا کام ہے. مگر جانتے ہیں کہ خود ان فوج والوں پر کیا بیتتی ہے، ان کے گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟
رمضان کی پہلی سحری ہے سبھی نے اپنے گھروں میں اپنے والدین، اپنے اہل و عیال کے ساتھ سحری کی ہوگی مگر ایک گھر کی سحری ایسی بھی ہے کہ جس میں بیوی کا شوہر تو موجود ہے، بچوں کا والد تو موجود ہے مگر ایک لاش کی صورت …..دے سکتے ہو ایسی قربانی؟جی زیر نظر تصویر ملٹری انٹیلینس کے کرنل سہیل عابد شہید کی ہے جو گزشتہ روز بلوچستان کے ریگزاروں میں دفاع وطن کے لیے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر گئے…آج سحری میں جب ان کے گھر میں ان کے پیارے، ان کے بابا، ان کے مجازی خدا، ان کے بڑھاپے کے توانا سہارے، ان کے جگر کے ٹکڑے کی لاش سامنے رکھی ہوگی تو خون کی سحری کرتے ہوئے ان کی کیفیات کیا ہونگی؟
ایسے میں اچانک سے ان کے سامنے یہ فقرہ آجائے کہ دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے تو کیا حشر ہوگا ان ورثاء شہید کا؟ کرنل سہیل عابد شہید دہشت گردوں سے اس لیے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے کہ ان کے وطن کا نوجوان سو حفاظتی حصاروں میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اسی فوج کے خلاف اسٹیٹس دے سکے، اسی فوج کے خلاف ٹویٹس کرسکےـ….دہشت گردی کے پیچھے فوج جیسے گندے اور غلیظ نعرے لکھ سکے….
جانتے ہو جب تیرا یہ ایک اسٹیٹس کرنل سہیل عابد کے بچوں کی نظروں کے سامنے سے گزرے گا تو ان کے دل پر کیا بیتے گی؟واللہ میں اپنے شہداء کی یہ بے توقیری دیکھ کر لرز اٹھتا ہوں اور دل سے یہ کسک سی اٹھتی ہے کہ یہ قوم دھماکوں اور حملوں ہی کی مستحق ہے مگر پھر دل میں خیال آجاتا ہے کہ یہ وطن تو اپنا ہے اس میں رہنے والے تو اپنے ہیں کیا ہو جو زبان دشمن کی بولتے ہیں، کیا ہوا جو شہداء کے مقدس لہو کی توہین کرتے ہیں، کیا ہوا جو اہل و عیال سے دور دفاع وطن کے مورچے پر ڈٹے سپاہی کا مورال اپ کرنے کی بجائے اس کی کردار کشی کرکے اس کا مورال ڈاؤن تو کرتے ہیں مگر ہیں تو اپنے نا اور پھر ان وردی والوں کی زندگیوں اور کردار پر بھی مجھے رشک آتا ہے ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ ہر درد دل پر سہے جاتے ہیں، ہر الزام پی جاتے ہیں ، ہر گالی ہنس کر برداشت کرجاتے ہیں پلٹ کر جواب نہیں دیتے مگر جب بات دھرتی ماں کی آتی ہے تو سینہ سپر ہوجاتے ہیں دشمن کا پیچھا اس کی کوکھ تک کرتے ہیں اور اس کو جالیتے ہیں پھر ان وردی والوں میں سے کچھ اللہ سے کیا ہوا وعدہ شہادت پورا کرجاتے ہیں اور کچھ پھر سے منتظر کسی نئے معرکے کے کسی نئی کاروائی کے مگر عزم و حوصلہ ذرا برابر بھی نہیں بدلہ شاید انہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا کہ

خون دل دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں