97

منظر نامہ بدل بھی سکتا ہے !

منظر نامہ بدل بھی سکتا ہے !

اس ملک میں کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں ایک عر صہ دراز سے مفاہمانہ رویوں کا فقدان ہی نظر آرہا ہے ، جبکہ جمہوریت مفاہمانہ رویوں کو راستہ دینے کا نام ہے ،مگر اس کو بے جا لڑائی اور مخاصمت کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے ، ہمارے سیاسی طبقات شاید اس فہم سے ہی عاری ہوتے چلے جارہے ہیں کہ سیاست میں مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہوتے ہیں،ہمارا سیاسی نظام پہلے ہی بہت منقسم ہے

اور اب سیاسی تقسیم مزید انتشار کا شکار کر رہی ہیں‘ لہٰذا اس عمل کی روک تھام ازحد ضروری ہے، اس کا ادراک کرتے ہوئے ہی وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے،اگر سیاسی حریف ایک میز پر بیٹھیں گے تو اس سے سیاسی درجہ حرارت بھی نیچے آئے گا اور مزید خرابی کا عمل بھی رک جائے گا۔
یہ وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کچھ دیر سے ہی سہی ، مگر ایک اچھی پیش رفت ہے ، لیکن اس اچھی پیش رفت کے مثبت نتائج تب ہی نکلیں گے کہ جب دونوں جانب سے نیک نیتی کا مظاہرہ کیا جائے گا ،اس میں حکومت کو پہل کرنا پڑے گی اور مزاکرات کیلئے ساز گار ماحول بنا نا پڑے گا ، اگر ایک طرف مذاکرات کی دعوت تو دوسری جانب پکڑ دھکڑ اور مذاکرات مخالف بیانیہ بنایا جائے گا تو کبھی مذکرات ہو پائیں گے نہ ہی آگے بڑھ پائیں گے ، سیاسی جماعتوں کو اب شخصی اور ذاتی حملوں اور تعصب کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ صحت مند مقابلے کی سطح پر آنا چاہیے ،آپس میں بات کرنا چاہئے اور قومی ترقی میں حصہ داری کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلنا سیکھ لینا چاہئے۔
دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں کئی سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں‘ ایک دوسرے سے اختلافات بھی ہوتے ہیں، مگر اصولی اختلاف کو عداوت نہیں بننے دیا جاتا‘وہاں خوشی خوشی انتقالِ اقتدار کی رسم پوری ہوتی ہے‘ نہ جیتنے والا فاتحانہ احساسات سے مغلوب ہوتا ہے نہ ہارنے والا ہار تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے ،جبکہ ہمارے ہاں ایسے واقعات دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ہماری سیاست جمہوری ثقافت سے آشنائی پیدا ہی نہیں کر سکی ہے، یوں ایک دوسرے کو گرانے اور اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش میں ہر بار ملک و قوم کی ترقی کے سفر میں نئی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں

،اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ،ایک طرف زبانی کلامی ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو نے کے دعوئے کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جارہی ہے ، حالا نکہ یہ ملک بے شمار وسائل سے مالا مال ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ پاکستان کو قدرت نے غیر معمولی وسائل سے نوازا ہے، صرف معدنی اور جغرافیائی وسائل کی ہی بات نہیں ہے، ہماری قوم باصلاحیت افراد کی قوم ہے‘ مگر دنیا کی کوئی قوم بھی اپنے فطری جواہر سے استفادہ نہیں کر سکتی ،

جب تک کہ اس کیلئے موافق ماحول میسر نہیں بنایا جائے گا ،ہمارے ہاں ایسا کچھ ہو سکانہ ہی ایسا کچھ کیا جارہا ہے،ہمارا شمار تعلیم‘ صحت‘ خوراک اور انسانی ترقی کے دیگر لوازمات کے حوالے سے پسماندہ ریاستوں میں ہورہا ہے،اس کی بہت بڑی ذ مہ دار سیاسی عدم برداشت‘ ہم آہنگی کا فقدان اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کی سیاسی روش ہے ،اگرسیاسی جماعتیں ہمہ وقت آپسی مڈ بھیڑ میں ہی مصروف رہیں گی تو کیسے ملک و عوام کی زند گی میں تبدیلی آئے گی ،ملک و قوم کی ترقی کے لیے ایک دوسرے کے دست و بازو بننا پڑے گاتو ہی منظر نامہ بد ل سکتا ہے۔
اگر اس ملک نے آگے بڑھنا ہے

تو اس کے منظر نامے کو بدلنا ہی ہو گا،اس کیلئے سب سے پہلے قومی سطح پر ایک سنجیدہ اور مسلسل مکالمہ ضروری ہے،کیو نکہ یہ ملک فردِ واحد کے فیصلوں سے نہیں، اجتماعی دانش سے ہی چلے گا ، ہمیں ذاتی اور جذباتی فیصلے پہلے بھی نقصان پہنچا چکے ہیں اور آئندہ بھی پہنچا سکتے ہیں،ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا، ورنہ حالات بار بار ہمیں وہی غلطیاں یاد دلاتے رہیں گے ،جو کہ بار بار دہراتے چلے آرہے ہیں،اس ملک کی ترقی، سلامتی اور جمہوری استحکام کیلئے سب کو ہی ذاتی مفاد اور وقتی فائدے کے بجائے ملک کے اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے،

مگر دشمنی، انتقام اور تقسیم کسی قوم کو مضبوط نہیں بناتے ہیں ، بلکہ کمزور کرتے ہیں ،ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی اور اپنے ملک کے اندر بھی رواداری، برداشت اور مفاہمت کو فروغ دینا ہوگا، ایک دوسرے کے وجود اور ایک دوسرے کو ماننا ہو گااور عوام کو نہ صرف فیصلوں میں شامل کر نا ہو گا ،بلکہ عوام کے فیصلوں کو ماننا بھی ہو گا،یہ ہی ایک ایسا راستہ ہے، جوکہ سارا منظر نامے کو بدل سکتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں ایک مضبوط، پرامن اور خوشحال ریاست بنا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں