88

مہنگائی کے عوام پر منفی اثرات !

مہنگائی کے عوام پر منفی اثرات !

اتحادی حکومت مہنگائی ، بے روز گاری قابو کرنے میں بالکل ہی ناکام ہو چکی ہے ،اس سال کے دوران بجلی، گیس کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ،اس ملک کا نچلا طبقہ تو پہلے سے ہی بیچارہ، لیکن اب تو مہنگائی نے متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،اس کے باوجودحکومت کی جانب سے مسلسل دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پا لیا گیا ہے، لیکن اس کے بالکل برعکس سب کچھ ہورہاہے

،ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ واضح کررہی ہے کہ مہنگائی کی شرح میں حالیہ ہفتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی کی زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ہردور اقتدار میں ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے اور اس بار بھی ویسا ہی کچھ ہورہا ہے ،ملک میں مہنگائی ،بے روز گاری میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے ،

مگر حکو مت دعوئیدار ہیں کہ مہنگائی اور بے روز گاری پر قابو پا لیا گیا ہے ، جبکہ وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح میں ہفتہ وار بنیادوں پر 0.24 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سالانہ بنیادوں پر یہ شرح کم ہو کر 3.75 فی صد پر آ گئی ہے، لیکن یہ کم ہونا صرف اس بات کا عندیہ ہے کہ مہنگائی کی بڑھوتری کی رفتار سست ہوئی ہے، اصل مہنگائی کم نہیں ہوئی ہے ،

اس رپورٹ کے مطابق چکن فی کلو 40 روپے 34 پیسے مہنگا ہوا، انڈے فی درجن 10 روپے 31 پیسے مہنگے ہو گئے اور جلانے کی لکڑی فی من 12 روپے 35 پیسے مہنگی ہوئی، اس طرح دال مونگ، تازہ دودھ، دہی، مٹن اور خشک دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، جوکہ عام گھروں کی روزمرہ زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
اگر حکومت اپنی گڈ گورنس پر توجہ مرکوز کرے اور انتظامیہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرے تو مہنگائی میں قدرے کمی لائی جاسکتی ہے ، جیساکہ کسی حد تک وقتی ہی سہی ، لیکن کچھ اشیا کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے، اس میں ٹماٹر فی کلو 9 روپے 1 پیسہ سستا ہوا، آلو فی کلو 5 روپے 8 پیسے کم ہوئے

اور چینی کی فی کلو قیمت میں 7 روپے 9 پیسے کمی آئی، لیکن یہ معمولی کمی مہنگائی کے مجموعی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ناکافی رہی ہے، دوسری جانب، بریڈ، گندم کا آٹا اور کپڑوں سمیت 20 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں، لیکن یہ استحکام بھی شہریوں کے لیے کسی بڑی راحت کا سبب نہیں بن سکا ہے ،کیونکہ بنیادی ضرورتوں کی دیگر اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیںاور اس میں بیوروکرسی اور انتظامیہ کا جہاںغیر ذمہ دارانہ کردار واضح طور پر نظر آتا ہے ، وہاں حکو مت کے جا نچنے کا بھی تسلی بخش دکھائی نہیں دیے رہا ہے

،حکومت مہنگائی کی شرح کی پیمائش کے لیے جو پیمانہ استعمال کررہی ہے، یعنی ’کنزیومر پرائس انڈیکس‘ (CPI)، اس میں منتخب اشیا اور ان کی قیمتوں کو شامل کر کے افراط زر کی شرح کا تعین کیا جاتا ہے ،لیکن اس پیمانے کی بنیاد پر دی جانے والی رپورٹیں عام آدمی کی حقیقی مشکلات کو ظاہر نہیں کرتی ہیں۔
اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی معاشی صورتحال پر تشویش ظاہر کی جا چکی ہے، آئی ایم ایف نے بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے اور یہ شرح 4.5 فی صد سے 6.3 فی صد تک پہنچ سکتی ہے ،آئندہ سال جون 2026 میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 8.9 فی صد تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، جبکہ جون 2025 میں یہ شرح 3.2 فی صد رہی ہے

یہ اعداد وشمار واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومتی دعوے حقائق پر مبنی نہیں ،بلکہ محض تشہیری بیانات ہیں ، جبکہ معاشی ترقی اور بے روزگاری کے حوالے سے بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں جارہی ہے ،آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح 3.2 فی صد تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ بے روزگاری کی شرح 8 فی صد سے کم ہو کر 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔
، اگرچہ یہ اعداد وشمار رسمی طور پر ہی بہتر لگتے ہیں، لیکن در حقیقت لاکھوں افراد ملازمت کے مواقع کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،اس بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور کم معاشی ترقی کے درمیان توازن قائم کرنا ہی ایک بڑا چیلنج ہے؟
اس ملک میں مہنگائی اور بے روز گاری کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں میں بنیادی نقائص ہیںاور ان نقا ئص کا تدارک کر ناوقت کی اہم ضرورت ہے ، حکومت کو چاہیے

کہ اعداد وشمار کے کھیل کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دے اور عوام کے لیے ریلیف کی پالیسیوں کو ترجیح دے ،اب بھی وقت ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے، کیو نکہ ملکی معیشت کی صورتحال بہتر ہو نے کے بجائے بہت خراب ہو تی جارہی ہے، سارا ملک کے عوام پریشان حال ہیں، اس کا ادراک کرتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھیں، کوئی صائب حل تلاش کر یںاور عام آدمی کی مشکلات میں فوری کمی لائیں،ورنہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا ، اس کے بعد عوام کی یلغار سے کوئی بچ پائے گا نہ ہی کہیں بھاگ پائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں