81

“اچھا کردار اپکو زندہ رکھتا ہے دلوں میں بھی لفظوں میں بھی “

“اچھا کردار اپکو زندہ رکھتا ہے دلوں میں بھی لفظوں میں بھی “

تحریر: خواجہ شریف

احساس ایک قیمتی نعمت ہے، جو صرف ان لوگوں کے اندر پیدا ہوتا ہے جو دردِ دل رکھنے والے ہوں۔ احساس کا مطلب صرف آنسو دیکھ لینا نہیں بلکہ ان آنسوؤں کے پیچھے چھپی تکلیف کو محسوس کرنا اور دل کی چیخیں سن لینا ہے۔

آج میں ایک ایسی ہی شخصیت کا تعارف اور ان کی گراں قدر خدمات کا تذکرہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ گو کہ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں، مگر انسانیت کی خدمت کو مقدس فریضہ سمجھ کر وہ لوگوں کے دلوں میں گھر بنا چکے ہیں۔ ان کا نام ہے خواجہ امجد میر، جو اس وقت صدر سیف فاؤنڈیشن، انچارج گلوبل سپورٹ ٹرسٹ، بانی ممبر راولاکوٹ سٹیزن فورم، منیجنگ ڈائریکٹر سکل ڈویلپمنٹ سنٹر، سابق ایڈمن ریڈ فاؤنڈیشن اور ایک نامور سماجی کارکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

خواجہ امجد میر کا تعلق راولاکوٹ ائیرپورٹ چک دھمنی سے ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ اپنے والد خواجہ عبدالفریم کے پاس اسلام آباد چلے گئے۔ راولپنڈی کے ایک سکول سے میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا، ایف نائن کالج اسلام آباد سے انٹرمیڈیٹ اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم بی اے (بزنس ایڈمنسٹریشن) کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ تعلیم ہی انہوں نے فلاحی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہیں حکومتی و نجی اداروں میں بہترین ملازمتوں کی آفرز ہوئیں، لیکن انہوں نے سب کو ٹھکرا کر الخدمت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے رفاہی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بعد ازاں مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہوئے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے قومی منصوبوں پر اپنی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کیا۔

بعد ازاں انہیں یو ایس ایڈ کے اشتراک سے ریڈ فاؤنڈیشن راولاکوٹ میں بطور ایڈمن کام کرنے کا موقع ملا، جہاں ان کی ذمہ داریاں تعلیمی نظام کو بہتر خطوط پر استوار کرنا، انتظامی معاملات اور مختلف پروگراموں کی نگرانی تھیں۔ یہ ایک اہم عہدہ تھا لیکن رفاہی سرگرمیوں کے لیے وقت کی کمی کے باعث انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ آج ریڈ فاؤنڈیشن کا منفرد مقام ہے اور اس ادارے کو بلندیوں تک پہنچانے میں ان کا مثالی کردار شامل ہے۔

خواجہ امجد میر کے نزدیک عہدہ یا منصب اہمیت نہیں رکھتا بلکہ سادگی، خلوص، ایمانداری اور خدمتِ خلق کا جذبہ ہی اصل پہچان ہے۔ انہوں نے اپنی ذاتی فلاحی تنظیم سیف فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد محروم طبقے کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ سیف فاؤنڈیشن کے تحت وہ رمضان کے علاوہ بھی ہفتے میں دو مرتبہ کھانے کے پارسل غریب اور مزدور طبقے میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کا مشن ہے کہ کوئی شخص بھوک، ننگ اور بے بسی کا شکار نہ ہو۔ بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بھی انہوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر فیسوں کا انتظام کیا اور آج انہی بچوں میں سے کئی ڈاکٹر اور انجینئر بن چکے ہیں۔

آپ “سٹیزن فورم راولاکوٹ” کے بانی ممبر بھی ہیں۔ کورونا وائرس اور سیلاب جیسی آفات کے دوران آپ نے نہ صرف راشن اور امدادی سامان تقسیم کیا بلکہ خود متاثرہ علاقوں میں جا کر بحالی کے کاموں میں حصہ لیا۔

اپنی کشمیری ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے آپ نے آزاد کشمیر کا پہلا برانڈ “ذوق کشمیر” شروع کیا، جس میں مقامی خواتین سلائی کڑھائی کے ذریعے اپنی پہچان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ خواتین کو ہنرمند بنایا جائے تاکہ وہ اپنے گھروں میں پروڈکٹس تیار کر کے آمدنی حاصل کر سکیں۔ اسی سوچ کے تحت 2023 میں آپ نے کشمیر کا پہلا رجسٹرڈ سکل ڈویلپمنٹ سنٹر قائم کیا، جہاں خواتین بیگ بنانا، کمپیوٹر کورس، سلائی، انگریزی زبان، فیشن ڈیزائننگ اور دیگر ہنر سیکھ کر اپنا کاروبار اور کیریئر بنا رہی ہیں۔

گزشتہ آٹھ سال سے آپ اجتماعی قربانیوں کا اہتمام بھی کر رہے ہیں اور قربانی کا گوشت صرف غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان کا پروفیشنل رویہ، عاجزی اور انکساری انہیں دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔

خواجہ کاشف میر (اسٹیٹ ویو) ان کے چھوٹے بھائی ہیں جو صحافت میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران انہوں نے انڈین چینلز پر لائیو پروگرامز میں بھارتی اینکرز اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کشمیر سمیت قومی ایشوز پر پیشہ ورانہ انداز میں اپنا کردار ادا کیا۔

خواجہ امجد میر کی ترجیحات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی شامل ہے۔ انہوں نے غریبوں کو پانی کی ٹینکیاں فراہم کیں، کنویں کھدوائے اور فلٹریشن پلانٹس لگوائے۔ ایک فلٹریشن پلانٹ کے لیے اپنی ذاتی زمین بھی اپنے دادا خواجہ عبدالرحمٰن کے ایصالِ ثواب کے لیے وقف کر دی۔ بیوہ اور مسکین عورتوں کو بھینس اور بکریاں بھی فراہم کیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔

جولائی 2024 میں ان کی صحت خراب ہوئی اور مختلف ٹیسٹوں کے بعد بڑی آنت میں ٹیومر کی تشخیص ہوئی۔ یہ ایک مہلک بیماری تھی مگر انہوں نے حوصلے سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے آٹھ کیموتھراپی سیشن، پھر نوری ہسپتال سے 28 ریڈیئیشن سیشن مکمل کیے۔ 13 مارچ 2025 کو الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں آٹھ گھنٹے کا طویل آپریشن ہوا جو رمضان المبارک کی برکتوں اور لوگوں کی دعاؤں سے کامیاب رہا۔ الحمدللہ اب وہ صحتیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

راقم کا چونکہ امجد میر سے قریبی تعلق ہے، اس دوران ان کے بے شمار چاہنے والوں سے رابطہ رہا جو رو رو کر ان کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ ان کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اللہ پاک انہیں شفاء کاملہ عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں