64

چینی پھر مہنگی ہو نے لگی !

چینی پھر مہنگی ہو نے لگی !

ایک ایسے وقت میں، جب کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے افراط زر میں کمی کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، عوام اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات ان تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟عوام تک مہنگائی میں کمی ا ثرات کیسے پہنچ سکتے ہیں ، جبکہ مہنگامین کمی ہو نے کے بجائے بڑھ رہی ہے ، دارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں چینی کی اوسط قیمت 3.38روپے فی کلو مزید بڑھ کر 175.19روپے تک جا پہنچی ہے

اور یہ رجحان خیبر پختونخوا میںبڑی خاموشی کے ساتھ پندرہ بیس روز پہلے سے ہی جاری ہے، جہاںچینی 185روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہے ،جبکہ دوسرے صوبوں میں یہ اضافہ حالیہ ہفتے کے دوران دیکھا جارہا ہے،اس کا فوری ادراک کرتے ہوئے ذمہ داران کو قانون کی گرفت میں لایا جانا ضروری ہے، لیکن کون لائے گا ، جبکہ یہاں سارے ہی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔
اس ملک میں کسی بھی چیز کا جو ریٹ مقر ر ہوتا ہے ،اس قیمت پر کبھی عام عوام کو چیز نہیں ملتی ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے

، وفاق نے ملک بھر میں چینی کی ریٹیل قیمت 168روپے فی کلو مقرر کررکھی ہے،حالانکہ یہ بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں 36روپے فی کلو زیادہ ہے،چینی کی قیمتوں میں اضافے کا عمل ستمبر اکتوبر میں شروع ہوا تھا اور حکومتی عمل دخل کے بغیر ملوں اور آڑھت کی سطح پر یک طرفہ طور پر فروری کے اختتام تک چینی کے نرخ 165روپے فی کلو تک پہنچ چکے تھے،اس کا اثر رمضان المبارک میں بیکری کے سامان،مٹھائی اور مشروبات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں مزید سامنے آیا، اس دوران خود چینی کی قیمتوں میں اوسطاًمزید14روپے فی کلو اضافہ ہوا،اور چینی 180روپے فروخت ہوتی رہی ہے۔
آئے روز بڑھتی مہنگائی سے عوام پر یشان حال ہیں ،مگر حکو مت بضد ہے کہ مہنگائی میں کمی ہورہی ہے ، جبکہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہی دکھا جارہا ہے ، ایک طرف ذخیرہ اندوز ی عروج پر ہے تو دوسری جانب مہنگائی مافیا من مرضی کررہا ہے ، یہ سب کچھ ابھی سے نہیں ہورہا ہے ،یہ سب کچھ گزشتہ تین چار دہائیوں سے چلا آرہا ہے،اگر ملک میں سخت ترین اور قرار واقعی سزائوں پر مشتمل قوانین بنائے جاتے اور اسی قدر ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے اقدامات بروئے کار لائے جاتے تو آج یہ دن دیکھنا پڑتے، لیکن یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہی ہورہا ہے ، کیو نکہ یہ سب کر نے والے خود ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں،ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگرصورتحال کو قابو نہ کیاگیا تو وہ دن دور نہیں کہ جب چینی200روپے فی کلو سے متجاوز ہوجائے گی۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ مشکوک شوگر ملوں اورہول سیل ڈیلروں،خصوصاً ذخیرہ اندوزوں پر کڑی نظر رکھی جائے،کیونکہ ان حالات میں ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان پر نظر کون رکھے گا اور ان کو نکیل کون ڈالے گا ؟ یہ سب کچھ انتظا میہ کے ہی زیر نگرانی ہورہا ہے اور انتظامیہ نے آنکھیں اور کان بند کررکھے ہیں ، اس لیے کوئی چیز مقررہ قیمت پر مل رہی ہے نہ ہی مقررہ قیمت پر کہیں فروخت ہورہی ہے ، صوبائی انتطامیہ ہر صبح ریٹ لسٹ ضرور جاری کرتی ہے اور یہ ریٹ لسٹ دوکانداروں کے ہاں اویزاں بھی کی جاتی ہے ، مگر اس ریٹ لسٹ کے مطابق کوئی دوکاندار چیز فر خت نہیں کر تا ہے ، ہر ایک کے اپنے ریٹ ہیں اور ہر ایک اپنی ہی مر ضی چلا رہا ہے اور حکو مت اور انتظامیہ بے بس کی تصویر بنی دکھائی دیے رہی ہے۔
یہ امرخوش آئند ہے کہ بظاہر وزیراعظم کو بھی عوام کی مشکل کا اندازہ ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف باتوں سے مسائل حل ہوتے ہیںنہ ہی بگڑے معا ملات درست ہوتے ہیں، وزیراعظم وقتاً فوقتاً عوام کو تسلیاں تودیتے رہتے ہیں، لیکن اس وقت دلاسوں اور تسلی کے بجائے عملی اقدامات کی اشدضرورت ہے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف مل سکے ، عوام کو کب تک ادھر اُدھر معاملات میں اُلجھا کر ور غلایا جاسکتا ہے اور دیگر ایشو پر بھلایا جاسکتا ہے،اس مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کرنے کیلئے صوبائی و وفاقی حکومت کو مل کر کام کرنا ہی ہوگا، بعد از وقت واویلا اور اپنی ہی بدنظمی اور بدانتظامی سے ہڑبونگ مچانا عقلمندی نہیں ہوتی ہے،ادارے اور انتظامیہ جب تک فعال نہیں ہوں گے اور اپنا کام تندہی سے نہیں کریں گے ، عوام مہنگائی سے نجات حاصل کر پائیں گے نہ ہی کبھی حقیقی رلیف لے پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں