مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ ! 34

جیتی جنگ ٹیبل پر نہیں ہارنی !

جیتی جنگ ٹیبل پر نہیں ہارنی !

پا کستان پانی کی شدید قلت کے دہانے پر کھڑا ہے،اس کے پیچھے ازلی دشمن کی کار گزارئیوں کے ساتھ ہماری حکومتوں کی اپنی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیاں بھی کارفرما رہی ہیں، اگر پہلے سے ہی پانی کے مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے وقتی اور طویل المدتی حل تلاش کر لیے جاتے تو آج ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ عفریت کی شکل اختیار نہ کرتا، لیکن ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں قومی مسائل سے زیادہ ذاتی مفادات ہی رہے ہیں ،

اس کے باعث ملک مسائل در مسائل سے دوچار ہے اور حکمران اقتدار کے مزے لوٹے جارہے ہیںاور اپنے اقتدار کو ہی دوام دیئے جارہے ہیں۔ہر دور حکو مت میں کسی نے بھی سنجید گی سے ملک کو درپش مسائل کے تدارک کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی ہے ، ملک میں ہو نے والی ماحو لیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا نہ ہی پانی کی کمی کے تدارک کا کو ئی بندوبست کیا گیا، جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے

پاکستان آنیوالے دریاؤں پر سیکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کر لیے اور اس پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ بھارتی سپریم کورٹ سے پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کا فیصلہ لے کر معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا ، مودی سر کار پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے میں کوشاں ہے اور ہمارے حکمران ابھی تک متعلقہ فورم پر معاملہ اُٹھانے پر ہی غورکیے جارہے ہیں۔
اس دوران ہم آبی قلت کے بحران کے دہانے تک آپہنچے ہیں اور موجودہ حکمرانوں کی ساری توجہ کا مر کز کچھ اور ہی ہے

، جبکہ حالیہ اعداد و شمار بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں، لیکن اس خطرے کی گھنٹی کی آواز حکمرانوں کو سنائی دیے رہی ہے نہ ہی بگڑتی صورتحال دکھائی دیے رہی ہے، جبکہ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1141 فٹ تک رہ گئی ہے اور قابل استعمال ذخیرہ صرف 1.377 ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے، چشمہ کینال کی صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے ،جہاں سطحِ آب 646.40 فٹ پر پہنچ چکی ہے اور ذخیرہ صرف 0.189 ملین ایکڑ فٹ ہے ،یہ خشک موسم یا بارشوں کی کمی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کے پس پردہ سفارتی، ماحولیاتی اور حکومتی غفلت کے پہلو بھی کارفرما ہیں، ان میں سب سے اہم پہلو سندھ طاس معاہدے کی بھارت کی جانب سے کی گئی یکطرفہ معطلی ہے کہ جس پر فوری توجہ دینے نہ صرف اشد ضرورت ہے،

بلکہ اس کو بحال کر نا بھی انتہائی ضروری ہے۔
یہ عالمی ضامنوں کی موجودگی میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ ،پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کا ضامن تھا، اس معاہدے کے تحت بھارت کو مشرقی دریائوں، راوی، بیاس، اور ستلج، کا پانی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے ،جبکہ پاکستان کو مغربی دریائوں، سندھ، جہلم، اور چناب،کے پانی کا حق حاصل ہے، تاہم 24 اپریل کو بھارت نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر کے نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ پاکستان کے آبی حقوق کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا ہے،بھارت ایک طر ف آبی جارحیت کررہا ہے تو دوسری جانب سر حدوں پر در اندازی کررہا ہے ،

پا کستان نے جب ہر محاذ پر منہ توڑ جواب دیا ہے تو جنگ بندی کی بات کررہا ہے،مذاکرات کی بات کررہا ہے، اگر اب امریکا کی مداخلت سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہورہاہے تو یہ حکومت ِ کے لیے سنہری موقع ہے کہ اس غیر قانونی اقدام پر واشنگٹن سے نہ صرف سنجیدگی سے بات کرے، بلکہ اس مطا لبے کو پورا کریا جائے، اگر اس موقع پر سفارتی طور پر کوئی کمزوری دکھائی گئی تو نہ صرف ہمارا پانی کا مستقبل مزید تاریک ہو جائے گا، بلکہ خطے میں پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مو جودہ حکومت محض بیانات تک ہی محدود نہ رہے، بلکہ عالمی فورمز، اقوامِ متحدہ اور عالمی بینک جیسے اداروں کو متحرک کرے اور بھارت کی یکطرفہ معطلی کو عالمی سطح پر بھی بے نقاب کرے، اس وقت پانی کی حفاظت انتہائی ضروری ہے ،اگر اس حوالے سے حکومت جنگ بندی کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں کرتی تو بھارت سے جنگ جیت کر بھی پاکستان کی شکست ہوگی،

پا کستان نے میدان میں جیتی جنگ کو مذاکرات کے ٹیبل پر نہیں ہارنا ہے ،اگر اس صورت میں حکومت کو مذاکرات کی ٹیبل سے اٹھنا بھی پڑے اور پانی کے لیے جنگ دوبارہ شروع کرنی پڑے تو یہ وطن عزیز کی ضرورت ہوگی، ہم نے بھارت کو سر حدی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ، اب آبی جارحیت کا بھی ایسا ہی منہ توڑ جواب دینا ہو گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں