درست راستے کا انتخاب ! 90

سیاسی بحران میں اتفاق راے کا ایجنڈا

سیاسی بحران میں اتفاق راے کا ایجنڈا

عید آئی اور چلی گئی ،لیکن سیاسی محاذ آرائی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ، اس سیاسی محاذ آرائی نے نہ صرف اداروں کو سیاسی میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے، بلکہ سیاسی جھگڑے قانونی لڑائیوں کی شکل اختیار کر تے چلے جارہے ہیں، انتخابات کی تاریخ سمیت ایسے تمام ہی مسائل کہ جنہیں سیاسی قیادت کے درمیان بات چیت اور باہمی رضامندی سے حل ہونا چاہیے، عدالتوں میں پہنچائے گئے اور عدلیہ نے جب ان کے فیصلے سنائے تو کسی نے تعصب اور جانبداری کا الزام لگایاتو کوئی عوام کی فتح قرار دیے رہا ہے ،

عدلیہ ہر فیصلہ بلا امتیاز آئین و قانون کی پاسداری میں کررہی ہے ،لیکن ہر کوئی اسے اپنے ہی نقطہ ٔ نظر سے دیکھتے ہوئے تعریف و تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے ،اس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں ،اس کا نقصان جہاں معاملات الجھانے والوں کو ہو گا، وہیں اس کا خمیازہ ملک وعوام کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ایک طرف سیاسی قیادت جمہوریت کی علمبر داری کے دعوئیدار ہے تو دوسری جانب جمہوریت کا اپنے ہی ہاتھوں گلا گھوٹ رہی ہے ،سیاست میں سیاسی تنازعات سیاسی انداز میں ہی حل کیے جاتے ہیں ،مگر یہاں سیاسی معاملات کیلئے غیر سیاسی وغیر جمہوری انداز اپنایا جارہا ہے ،سیاستدان جب اپنے تنازعات کو سیاسی طریقے سے حل نہیںکریں گے اورجمہوریت کو غیر فعال حالت میں چھوڑ دیں گے

تو پھر جمہوریت نہ صرف کمزور ہو تی جائے گی ،بلکہ اپنا وجود بھی زیادہ دیر تک برقر ارنہیں رکھ پائے گی ، تاہم سیاسی قیادت کو جمہوریت کی فکر ہے نہ ہی ملک وعوام کا کچھ خیال ہے ،یہ اپنے حصول مفاد میں نہ صرف ہر چیز دائو پر لگا رہے ہیں،بلکہ اپنا اقتدار بچانے کیلئے آئین و قانون کی سر عام کیخلاف ورزیاں بھی کررہے ہیں ۔
موجودہ زہریلی سیاست اور انتہائی عدم برداشت نے جمہوریت کے خلاف ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے، جو کہ جمہوری ثقافت کی ہر علامت ختم کر رہاہے ، پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے غیر دانش مندانہ فیصلے کے بعد سے پارلیمنٹ ایک ایسی گاڑی بن کررہ گئی ہے کہ جسے حکومت عدلیہ کے خلاف استعمال کررہی ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی قرارداد اور اسمبلی میں اس کی مذمت میں جارحانہ تقاریر، اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں، حکومت اعلی عدلیہ پر زبانی کلامی حملے نہیں کررہی ہے

،بلکہ عملی طور پر کمزور کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے ،حکومت کا عدالت عظمیٰ کے اختیار اور قانونی حیثیت کمزور کرنیکی کوشش، اس کے فیصلے کی پاسداری سے انکار اور اپنے حامیوں کو قانونی برادری کے درمیان متحرک کرنا قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتا ہے،یہ قانونو آ ئین کی خلاف ورزی ملک کو بدامنی و افراتفری کے راستے پر دھکیل دے گی اور اس کی سیاسی قیمت سب ہی کو چکانا پڑے گی۔
ہر دور اقتدار میں حکمرانوں کی نا اہلیوں کی سزا حکمرانوں سے زیادہ عوام نے بھگتی ہے ،اس بار بھی عوام ہی نشانے پر ہیں، عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے،سیاسی قیادت کو عوامی فلاح سے زیادہ حصول اقتدار کی فکر کھائے جارہی ہے،یہ اشرافیہ کی جماعتوں کے درمیان جو زبردست محاذ آرائی اور مقابلہ جاری ہے، اس کا عوامی ضروریات یا عوامی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں ہے،عوام کو کل بھی اشرافیہ اپنے حصول مفاد کیلئے استعمال کرتے رہے ،عوام کو آج بھی بڑی بے دردی سے استعمال کیا جارہا ہے

،عوام کل بھی مررہے تھے ،عوام کو آج بھی بڑی بے دردی سے مارا جارہا ہے ،عوام کا کوئی پر سان حال نہیں ہے ،لیکن اس کے ذمہ دار عوام خود ہیں ،جوکہ جانتے بوجھتے آزمائے ہوں کو آزمائے جارہے ہیں ،حکومت کی بے انصافی کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں نہ ہی احتجاج کیلئے سڑکوں پر آرہے ہیں ،عوام جب تک اپنے حق کیلئے متحد ہو کر آواز نہیں اُٹھائیں گے اور سڑکوں پر سراپہ احتجاج نہیں ہو گے ، عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی نہ ہی حالات بدلیں گے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے

کہ موجودہ خراب صورتحال کو بحال کرنے کا واحد حل ایک ہی دن فوری انتخابات ہیں، ملک بھر میں عام انتخابات عوامی مطالبہ ہے ،حکمران اتحادعوامی مطالبے سے راہے فرار اختیار کرنے کے بجائے اس کے انعقاد کیلئے اقدمات کرے ،اس حوالے سے پی ڈی ایم کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستعفی ہو کر ملک کو آئینی، سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکلنے کا راستہ دیں اور سیاسی معاملات کو عدالت کے بجائے سیاسی پلیٹ فارم پر حل کریں، اعلیٰ عدلیہ کو بھی چاہئے کہ مذاکرات اور مکالمہ کی کامیابی تک سیاسی اور آئینی مقدمات پر تحمل کا مظاہرہ کرے اور سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قابل قبول حل تلاش کرنے کا موقع دے،اس دوران مقتدر حلقے اپنے وعدے کے مطابق نہ صرف نیوٹرل رہیں ،

بلکہ نیوٹرل نظر بھی آئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی قیادت میں ایک قومی میثاق طے نہ ہو پائے ،سیاسی قیادت جب بھی دوسروں کے اشاروں پر چلنے کے بجائے قومی مفاد میں اتفاق رائے کے ایجنڈے پر مل بیٹھیںگی توایک ایسا قومی میثاق ضرور طے پاجائے گا، جو کہ عومی فیصلے کے ذریعے ملک کو درپیش اندھیر وں سے نکال کر ترقی وخوشحالی کی روشن راہ پر گامزن کر سکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں