مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے ! 182

چہرے کی تبدیلی سے عملی تبدیلی نہیں آئے گی

چہرے کی تبدیلی سے عملی تبدیلی نہیں آئے گی

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک کے معاشی و معاشرتی نظام میں بہتری لانے اور گڈ گورننس بہتر بنانے کے لئے وزیراعظم اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں، اس سلسلے کی تازہ تبدیلی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی جگہ حماد اظہر کی تعیناتی ہے ، وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز کے مطابق حفیظ شیخ کو روز افروز مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے ہٹایا گیا، لیکن پس پردہ کچھ اور وجوہات بھی ہیں کہ جو ان کی سبکدوشی کا سبب بنی ہیں،اس میں بظاہر ایک تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے منتخب رکن نہیں تھے ،جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر بننے کے لئے ان کا منتخب ہونا ضروری تھا،

انہوں نے سینٹ کا الیکشن لڑا، مگر ہار گئے، معیشت کے محاذ پر ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی اور وفاقی کابینہ کے سینئر ارکان کو بھی ان کے بارے میں تحفظات تھے، وہ ایک تجربہ کار سردوگرم چنیدہ ماہر اقتصادیات ضرور ہیں جو پیپلزپارٹی کے دور میں بھی اسی منصب پر فائز رہے، مگر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی روک تھام کرنے میں ناکام رہے کہ جس نے عوام خصوصاً غریب اور متوسط طبقے کو بے حال کررکھا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت عوام کو رلیف دینے کیلئے کو شاں ہے ،تاہم اس حوالے سے وزیر اعظم کے اقدامات کے نتایج حوصلہ افزا نہیں رہے ہیں، حکومت کی جانب سے حفیظ شیخ کی بر طرفی یا ان سے جان چھڑانے کے بارے میںالزام تراشی ناقابل فہم ہے ،حکومت وزراء تاثر دینے کی کوشش کر ر ہے ہیںکہ وزیر اعظم حفیظ شیخ سے نا خوش تھے اور ملک میں مہنگائی کے ذمے دار صرف حفیظ شیخ رہے ہیں، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ ملک میں ڈالر کی قدر کس نے بڑھائی، اسٹیٹ بینک نے انہیں بتائے بغیر یہ کام کیا،108والا ڈالر170 تک پہنچا دیا گیا، پھر مہنگائی کیوں نہیں بڑھے گی۔حکومت سبسڈی ختم کر رہی ہے تو عوام کو رلیف کہاں سے ملے گا،کیا یہ کام بھی حفیظ شیخ نے تنہا کیا ؟

اگر سارے کھیل کو دیکھا جائے توکچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری والا معاملہ ہے، حفیظ شیخ کو جب وزیر خزانہ بنایا گیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک میں دو قوتوں کے درمیان لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد سینیٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کو ہرانے کا ڈراما صاف ظاہر کر رہا ہے کہ اس کا مقصد محض پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی لڑائی نہیں ، بلکہ حفیظ شیخ کا بھی راستہ روکا گیا ہے،کیونکہ یوسف رضا گیلانی کا بھی اسی طریقے سے صفایا کیا گیا کہ جس سے حفیظ شیخ کو ہرایا گیا تھا۔
اگرحکومت کا موقف مان بھی لیا جائے کہ وزیر اعظم نے حفیظ شیخ کو غریب عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے منصب سے ہٹایا تو حکومتی عوام دوست ٹیم چند اور اقدامات کر دے ، عالمی بینک کے نمائندے کو اسٹیٹ بینک کی گورنر شپ کے منصب سے غریب عوام کی خاطر ہٹا دیا جائے، کیونکہ گورنر کا اپنا بیان ہے کہ ڈالر کی قدر بڑھانے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت غریب عوام کی خاطر اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے نام پر گورنر کو پاکستان کا وائسرائے بنانے کا فیصلہ منسوخ کر دے، غریب عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے سبسڈی ختم کرنے کے فیصلے کو بھی واپس لیا جائے ،حکومت غریب عوام کی خاطر مزید غیر ملکی قرضے لینے کا فیصلہ بھی تبدیل کرے ،یہ کہنا ضروری نہیں کہ حکمراں جھوٹ بول رہے ہیں، لیکن یہ تو سب کے سامنے ہے کہ سارے اقدامات حکومت کی جانب سے ہی ہو رہے ہیں کہ جن سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
اس وقت ملک میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور کورونا وائرس کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں اور معیشت کی سمت درست ہونے کے دعوئوں کے باوجود حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس کا وزیراعظم کو بخوبی ادارک ہے ،اسی لیے وزیر خزانہ تبدیل کرکے اپنی معاشی ٹیم میں نئی جان پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اصلاح احوال کی صورت پیدا کی
جاسکے،لیکن سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ جو حکومت اپنی نصف سے زیادہ مدت میں کچھ نہ کرسکی وہ باقی ماندہ دوسال میں کیا کرے گی؟ لگتا ہے اب تک جو ہو،ا وہی ہوتا رہے گا اور عوام کو مطمئن کرنے کے لئے چہرے تبدیل کئے جاتے رہیں گے،لیکن عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔عالمی تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان اقتصادی ترقی میں بنگلہ دیش جیسے ملکوں سے بھی پیچھے رہ گیا ہے اور حکومت کی ساکھ دائوپر لگی ہوئی ہے ،حکومت کو اپنی ساکھ کی بہتر ی اور عوام کے اطمینان کے لئے اگلے دو سال میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پی ٹی آئی جو تبدیلی کا ایجنڈا لے کر برسراقتدارآئی ،ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔حکومت اصلاحات لانے کی خواہش مند ضرور ہوگی ،مگر عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں،لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اربوں ڈالر کے قرضوں میں جکڑی معیشت اور آئی ایم ایف کا دبائوایسا کرنے بھی دے گا؟
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت کیلئے آئی ایم ایف کے شدید دبائومیں عوام کو رلیف دیناخاصا مشکل کام ہے ،تاہم اگرحکومت کو تکنیکی بنیادوں پر آئی ایم ایف کے نمائندے حفیظ شیخ سے خلاصی پانے کا موقع مل ہی گیا ہے تو انکی خراب کی گئی ملکی معیشت سدھارنے کی جانب بھی آنا ہوگا۔ عوام جس طرح غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ اگر حکومت نے انہیں فوری ریلیف دینے کیلئے کوئی مؤثر اقدام نہ اٹھایا تو اسے سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس تناظر میں حکومت کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے اور عوام کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے گھمبیر مسائل ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، بین الاقومی مالیاتی اداروں کے بیانئے کی بجائے پاکستانی بیانیہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے،نئے وزیر خزانہ عماداظہر کو ٹارگٹ دیکر حفیظ شیخ کی پالیسیوں سے قومی معیشت پر مرتب ہونیوالے منفی اثرات زائل کئے جا سکتے ہیں، اسی طرح حکومتی گورننس کی بہتری کیلئے بھی ہر سطح پر تبدیلی بروئے کار لائی جانی چاہئے، تاکہ ملک کو اقتصادی اور سیاسی استحکام کی منزل حاصل ہو سکے،ورنہ چہرے کی تبدیلی سے عملی تبدیلی کبھی نہیں آئے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں