140

مفتی شمائیل ندوی اورجاوید اختر کے درمیان, “اللہ کے ہونے نہ ہونے” کا مناظرہ

مفتی شمائیل ندوی اورجاوید اختر کے درمیان, “اللہ کے ہونے نہ ہونے” کا مناظرہ

نقاش نائطی
۔ +966562677707

جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان “کیا واقعی اللہ ایشور کا وجود ہے” اس پر دہلی کانسٹیٹیوشن کلب میں جو ڈییٹ یا مناظرہ ہوا تھا اس نے ایک بات تو ثابت کردی ہے کہ اللہ نے ہر انسان کی تقدیر جو لکھ چھوڑے جانے کے باوجود, ہر انسان کو خیر و شر میں سے کسی اہک کا انتخاب کرنے کی آزادی, “فری ول” دی ہوئی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر لکھ دئیے جانے کے باوجود خیر و شر میں ایک کا انتخاب کئے جانے ّکی حضرت انسان کو دی جانے والی آزادی, دراصل حضرت انسان کا امتحان لئے جانے والے عمل سے مربوط ہے اور انسانی زندگیوں والے خیر و شر اعمال کا امتحان لیا

جانا ہی ہم انسانوں پر اللہ کے ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔اس مناظرہ میں دنیوی علوم کے ماہر جاوید اختر کا یہ اظہار کرنا کہ “اللہ ایشورکی موجودگی باوجود, غزہ کے معصوم ہزاروں بچوں کی درناک اموات اور پورے عالم میں روزانہ کی بنیاد پر نساء پر کئے جانے والا ظلم و ستم , انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ایسے, بے بس اللہ کے ہونے کو قبول کریں” گویا ہزاروں لاکھوں سامعین والے اوپن میڈیاپرجاوید اختر نے انکے اللہ ایشور کو قبول نہ کرنے کے اعلان باوجود اللہ ایشور کے ہونے کو تو قبول کر دیا پے۔اس اعتبار سے20 دسمبر 2025 دہلی کونسٹیٹیوشن ھال منعقدہ مناظرہ ایک آعتبار سے مفتی شمائل ندوی جیت چکے ہیں

ہم نے بچپن سے اہل حدیثوں اور عیسائی اہل علم حضرات کے درمیان اور دیوبندی علماء کرام کے اہل حدہث علماء کرام کے درمیان بحث و مباحثوں مناظروں کے بارے بہت کچھ سنا تھا یقینا” وہ سب مناظرے دورجاہلیت والےعوامی مناظرے ہوا کرتے تھے جس میں ماڈریٹر یا ناظم, عوام کا ہجوم ہوا کرتے تھے۔ عوام کی اکثریت جس مقرر کے دلائل سے متاثر تر نظر آتے عوامی شور و غوغا ھیجانی کیفیات شکشت خودہ مقررکو جیتنے والے کے تخیلات و تفکرات کو قبول کرنا ہوتا تھا یا میدان چھوڑ بھاگنا پڑتا تھا۔ لیکن علم و بصیرت والے اس تمدنی ترقی یافتہ دور جدید میں 20 دسمبر 2025 دہلی کونسٹیٹیوشن ھال میں منعقد ہم مسلمانوں میں ہی سے, دو اعلی تعلیم یافتہ شخصیات کے درمیان دو مختلف نظریاتی تفکر, کیا

نہ صرف آس عالم انسانیت و چرند پرند درند حیوانات و حشرات الارض والبحر کیڑے مکوڑوں و سمندری مخلوقات کو سموئے ہوئے اس بیضوی شکل دنیا کو بالکہ اس دنیا سے پرے چاند سورج سمیت ہزاروں چھوٹے بڑے ستاروں پر مشتمل اس گیلکسی اور اسکے ساتھ اب تک سائینس دانوں کےڈھونڈ نکالے یا اعتراف کئے دیگر گیلکسئز کے علاوہ, مسقبل قریب یابعید میں سائینس دانوں کے ڈھونڈ نکالے جانے والے متعدد گیلکسیز کو معرض وجود بخشنے والا کوئی اللہ ایشور گاڈ ہے یا یہ سب کچھ خود کار انداز وجود میں آئی کائینات ہے؟ جو ہم انسانوں میں اعلی تعلیم یافتگان کو اللہ ایشور کے وجود ہی کا انکاری بننے مجبور کرتا ہے

۔ آج دہلی 20 دسمبر2025منعقدہ جاوید اختر بمقابلہ مفتی شمائیل ندوی کے درمیان تبادلہ خیال مباہلہ یا مناظرہ کو آپسی اتفاق طہ پائے چند شرائط پر ہارجیت کے فیصلے کو قارئین پر چھوڑ دئیے جاتے, آپسی اختلافات ہنگامہ برد کرنے سے پرہیز کرنے والے اصل مقصد کے تحت منعقد کیا گیا ہے۔ایسے مناظرے یا مباہلے اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے ہی شروع ہوتے ہیں جب آبتداء اسلام مشرف بالاسلام مسلمانون پر کفار و مشرکین مکہ ظلم و زیادتی کا شکار بنایا کرتے تھے اس میں حبشہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت اسلام کی ابتدائی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے، جب مکہ کے مسلمانوں کو مشرکین قریش کی شدید ایذا رسانیوں اور ظلم و ستم سے بچانے کے لئے نبی اکرم ﷺ کی طرف سے نہ صرف اجازت سے بلکہ بادشاہ حبشہ نجاسی کے نام اپنے لکھے پہلے خط کے ساتھ حبشہ موجودہ ایتھوپیا کے عیسائی بادشاہ نجاشی کے ملک میں دو بار ہجرت کی گئی،

جہاں انہیں نہ صرف پناہ اور تحفظ ملا بلکہ چین و سکون کے ساتھ رہنے کی اجازت بھی ملی تھی، اور یہ واقعہ مسلمانوں کے صبر، توکل اور ایک عادل حکمران کے تحت آزادی سے زندگی گزارنے کی مثال ہے. اس گروہ میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زبیر بن عوام، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ، اور حضرت ابوحذیفہ شامل تھے
یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے حبشہ پہنچے تھے۔حبشہ سے اہل مکہ کا تجارتی رابطہ تھا، چنانچہ سرداران قریش نے دو تجربہ کار نمائندوں عبداللہ بن ربیعہ اور عمروبن العاص کو نجاشی اور ان کے وزراء کے لیے تحفہ تحائف دے کر حبشہ روانہ کردیا۔ ان تحائف میں بیش تر چمڑے کی مصنوعات تھیں۔ کفار کے نمائندوں نے حبشہ پہنچ کر نجاشی کے تمام وزیروں کو تحفے پیش کیے اور ان سے وعدہ لے لیا کہ وہ بادشاہ کو مہاجرین کو واپس کرنے پر آمادہ کریں گے۔ قریش کے نمائندے آخر میں نجاشی کی خدمت میں تحفے لے کر حاضر ہوئے اور عرض مدعا رکھا
”چند بے وقوف نوجوان اپنے قومی دین کو چھوڑ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں مگر آپ کے دین میں داخل نہیں ہوئے؛ بلکہ ایک ایسے دین کا اتباع کرتے ہیں جس سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ آپ۔ ان کی قوم کے بزرگوں نے ہمیں آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ آپ ان کو لوٹادیں، کیونکہ وہی لوگ ان کے سرپرست ہیں، وہی جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے اور کیوں ان سے ناراض ہیں۔“
نجاشی سے وفد نے گذارش کی کہ ان مہاجروں کو اپنی بات کہنے کا موقع دئیے بغیر ان کے حوالے کیا جائے۔ وزیروں نے بھی وفد کی تائید کی اور بغیر مہاجروں کی بات سنے ان کو وفد کے حوالہ کرنے کی درخواست کی مگر بادشاہ انصاف پسند تھا فطری انصاف کے تقاضوں سے واقف تھا اس نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اس طرح ان کو تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا، جو لوگ میرے ملک میں آئے، میرے پڑوس میں رہے، میری پناہ کو دوسروں کے مقابلہ میں ترجیح دی، میں ان کو ضرور بلاؤں گا اور ان سے تمہارے عائد کردہ الزامات کے سلسلہ میں ضرور پوچھ گچھ کروں گا اگر وہ تمہارے الزامات کی تصدیق کریں گے

تو میں ان کو تمہارے حوالہ کردوں گا اور واپس بھیج دوں گا اور اگر وہ دوسری بات کہتے ہیں تو میں ان کو ہرگز حوالہ نہیں کروں گا، بلکہ بدستور حسن سلوک کروں گا۔مسلمانوں کی پریشانی یہ تھی قریش کے نمائندے کے الزام اور مطالبہ کا جواب دینے کے لیے جب نجاشی نے صحابہ کرام کو بلوایا تو حضرات صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس وقت کیا حکمت عملی اختیار کی جائے جس سے وہ کفار کے شکنجہ میں پھنسنے سے محفوظ رہ سکیں، اسلام کی تاریخ میں اجنبی ملک میں مسلمانوں کا یہ پہلا مقدمہ تھا اوراس پر اسلام کے مستقبل کا انحصار تھا۔ نجاشی نے وزراء، علماء ، مشاہدین، مدعی اور مدعاعلیہ سے بھرے دربار میں جب ان کے سامنے قریش کے وفد کا مقدمہ رکھا تو مہاجرین کے قائد حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے ذریعہ اپنے دفاع میں تین سوالات قریش کے نمائندوں سے کیے۔
۱) کیا ہم کسی کے غلام ہیں؟ جو اپنے آقا سے بھاگ کر آئے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہمیں ضرور واپس کیا جائے۔
نجاشی نے عمروبن العاص سے جواب طلب کیا تو انھوں نے کہا کہ نہیں یہ لوگ آزاد اور شریف ہیں۔
۲) کیا ہم کسی کو قتل کرکے بھاگے ہیں؟ اگر ہم نے ناحق خون کیا ہے تو ہمیں مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے۔
نجاشی نے وفد سے جواب طلب کیا تو عمروبن العاص نے کہا کہ نہیں ایک قطرہ خوں بھی نہیں بہایا۔
۳) کیا ہم کسی کا مال لے کر بھاگے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
نجاشی نے وفد سے جواب مانگا تو انھوں نے کہا نہیں ایک پیسہ بھی لے کر نہیں بھاگے۔
حضرت جعفر طیار نے نجاشی کی عدالت میں قریش کے الزامات کے جواب میں جو سوالات اٹھائے تھے وہ اتنے معقول، برمحل اور عام ذہن کو اپیل کرنے والے تھے کہ عدالت میں موجود ہر شخص نے مہاجرین کی بے گناہی اور کفار قریش کی ایذارسانی کا اندازہ لگالیا، پھر بھی نجاشی نے مقدمہ خارج نہیں کیا بلکہ قریش کے وفد کے لگائے الزامات پر بحث شروع کی، انھوں نے حضرات صحابہ سے اس سوال کا جواب طلب کیا کہ وہ کونسا دین ہے جس کے باعث تم نے اپنی قوم کو چھوڑا، نہ ہمارے مذہب میں داخل ہوئے اورنہ دنیا میں موجود دوسرے مذاہب میں شامل ہوئے؟
اس سوال کے جواب میں حضرت جعفر نے اپنے دینی موقف اور مذہبی تعلیم کی وضاحت نہایت معقولیت اور بصیرت کے ساتھ کی، انھوں نے کہا۔ ”بادشاہ سلامت! ہم جاہلیت میں مبتلا تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتے تھے، پڑوسیوں سے براسلوک کرتے تھے، ہمارا طاقت ور کمزور کو دبالیتا تھا، ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہمارے درمیان ایسا رسول بھیجا جس کے نسب، سچائی، امانت اور پاکدامنی سے ہم واقف ہیں۔ انھوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم صرف ایک معبود کی پرستش کریں، اس کے علاوہ پتھر وغیرہ کے وہ تمام بت جن کی ہم اور ہمارے آباء واجداد پرستش کرتے تھے چھوڑ دیں، انھوں نے ہمیں سچ بات بولنے کی، امانت داری کی، صلہ رحمی کی، پڑوسیوں سے حسن سلوک کی، حرام کاموں اور دوسروں کا خون بہانے سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی۔انھوں نے ہمیں بدکاری سے، جھوٹی بات کہنے سے، یتیم کا مال کھانے سے، پاک دامن عورتوں پر الزام لگانے سے روکا۔ انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں، نماز، زکوٰة اور روزہ وغیرہ کا حکم دیا۔ چنانچہ ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لے آئے، اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے احکام میں ان کی پیروی کی، ایک اللہ کی عبادت کی، شرک چھوڑ دیا، جس کو حرام کہا اسے حرام جانا، جسے حلال کہا اسے حلال سمجھا۔
بادشاہ سلامت! یہی وہ جرم تھا جس کی بنا پر ہماری قوم نے ہم سے دشمنی کی ہمیں ٹارچر کیا، ہمارے دین کی خاطر آزمائش میں ڈالا تاکہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر ہم پھر بتوں کی پوجا کرنے لگیں،اور جاہلیت کی طرح گندے کاموں کو جائز سمجھیں۔ جب انھوں نے ہم پر قہر ڈھایا، ہم پر ظلم کیا، ہمارا جینا دوبھر کردیا اور ہمارے مذہب کے درمیان رکاوٹ ڈالی تو ہم وطن سے نکل کر آپ کے ملک میں چلے آئے، دوسروں کے مقابلہ میں آپ کو ترجیح دی، آپ کی ہمسائیگی اختیار کی اس امید پر کہ آپ کے یہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔
نجاشی اور ان کی عدالت عالیہ جب مطمئن ہوگئی کہ قریش کا الزام غلط اور مسلمانوں کا بیان درست ہے، تو نجاشی نے آخری سوال مہاجرین صحابہ سے یہ کیا کہ جس خدائی حکم اور تعلیم کا تم حوالہ دے رہے ہو اس کے متن کا کوئی حصہ تمہارے پاس ہے؟۔
تب حضرت جعفر طیار نے کہا جی ہاں موجود ہے اور موقع کی مناسبت سے سورہ مریم کے ابتدائی رکوع کی تلاوت شروع کی۔ تلاوت کیا کی ,از دل خیزد بردل ریزد، کا سماں باندھ دیا، حضرت جعفر سورہ مریم کی تلاوت کی تو باران خشت برسنے لگی، نجاشی نے روتے روتے داڑھی تر کرلی، پادریوں نے روتے روتے اپنے صحیفے بھگولیے، حضرت جعفر کے تین نکاتی سوالات نے عدالت کو پہلے ہی مطمئن کردیا تھا اوراب ان کی تلاوت قرآن نے عدالت عالیہ کے دلوں کو فتح کرلیا۔ نجاشی انصاف پرورہی نہیں، صاحب دل اور صاحب معرفت بھی تھے، انھوں نے عدالت میں فیصلہ سنادیا۔نجاشی نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیع کے لائے ہوئے تحفے واپس کر دیے اور یہ لوگ ناکام مکہ واپس لوٹ گئے۔

یہسلم دنیا کا پہلا مباہلہ مناظرہ یا موجودہ دور کےحساب سے ڈبیٹ تھی جو بادشاہ حبشہ کے دربار میں مسلم مہاجرین اور قریش مکہ کے وفد کے درمیان پوئی تھی
اسکے بعد ہزاروں ایسے مباہیلے مظاہرے دین کا نہصرف حصہ بن چکے تھے جب سکوتِ بغداد (1258ء) کے وقت منگول حکمران چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان حملہ آور ہوا تھا، اس وقت اسلامی سلطنت کے دارالخلافہ میں خلیفہ امت مسلمہ معتصم باللہ منگول حکمران اور اسکی افواج کا مقابلہ میدان کار زار میں کرنے کے بجائے مسجدوں میں علماء کرام و حفاظ کرام سے دشمن کی ہلاکت کی رائیں کروا رہا تھا اور مسلم امہ عام بیک وقت کئی کئی شاہراوں پر کوئے کا گوشت حلال یا حرام جیسے غیر ضروری مسائل پر مباپلے اور مناظرے کررہے تھے۔مغلوں اور انگرئزوں کے دور میں بھی مناظرے اور مباہلے منعقد ہوا کرتے تھے

لیکن آزاد بھارت کے بعد ھند نزاد افریقی احمد دیدات اور اب کے دنوں ڈاکٹر ذاکر نائک کے مناظرے ہونے لگے تھے۔ لیکن اعلی تعلیم یافتگان کا یہ پہلا سلجھا ہوا مباہلہ یا مناظرہ یا ذبییٹ تھی جو اعلی اقدار کے تحت منعقد کی گئی تھی ۔جس میں کسی کو کامیاب سرخرو یا ناکام شکست خوردہ شرمندہ کرنے کے بجائے دونوں طرف کے دو سو حاضرین اور لائیو میڈیا کوریج کروڑوں ہم انسانوں کےصوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔گو حاضرین میں موجود عوامی سطح موقر صاحب حیثیت اعلی تعلیم یافتگان کی آراء نے قاری شمائل ندوی کو فاتح اور جاوید اختر کو لاجواب شکست خوردہ قراردیاہے ۔ اس اقسام کی مذہبی ڈیبیٹ گفتگو یا تبادلہ خیال مختلف مذہبی فرقوں کے آپسی بہت سارے مسائل حل کرتے پائے جاسکتے ہیں اور دین حنفیت کی خرافات و دین حنیف کی حقانیت کو اظہر من الشمس کی طرح ہم مسلمین پر واضح کیا جاتے تو ہمیں دین اسلام پر عمل آوری آسان و سہل کی جاسکتی ہے اور سب سے اہم اعلی تعلیم یافتگان میں روز بروز اضافہ ہوتا خدابیزار طبقہ کو دین آسمانی کی طرف ملتفت کرنا آسان تر ہوگا وماالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں