83

پتنگ بازی کی اجازت کیوں ؟

پتنگ بازی کی اجازت کیوں ؟

پتنگ بازی کو انسانی جان سے کھیلنے کا کھیل ہے، اس کے باوجود بسنت کے نام پر اس ہولناک کھیل کو کھلایا جارہا ہے، ہر سال کئی لوگ پتنگ کی گلے میں ڈور پھرنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار تے رہے ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ سامنے آتی رہی ہے،بسا اوقات پتنگ بازی کے شوقین افراد خود بھی چھت سے گر کر یا پتنگ پکڑنے کے چکر میں بھی اپنی جان گنوا بیٹھتے رہے ہیں،اس لیے پا بندی لگائی گئی ،

مگر اس پا بندی کے ایک مخصوص طبقہ نہ صرف خلاف رہا ہے ،بلکہ اس کو تفریح کا درجہ ہی دیتا آرہاہے، جبکہ پتنگ بازی دینی، اخلاقی یا قانونی طور پر ناقابل معافی جرم ہے،اس پر علمائے کرام کا فتویٰ بھی آیا ہواہے کہ جس کے تحت پتنگ بازی کو غیر شرعی کھیل قرار دیا گیا ہے، عوام کی اکثریت بھی پتنگ بازی سے تنگ آئی ہوئی ہے، لیکن اشرافیہ کی دلجوئی کیلئے بسنت کے نام پر خو نی کھیل کھیلنے کی اجازت دیے دی گئی ہے۔
ہر دور اقتدار میں بسنت کے نام پر خونی کھیل کی اجازت کا معاملہ سامنے ا ٓتا رہا ہے ، مگر عوام کی جانب سے سخت مخالفت پر اجازت نہیں دی جاتی رہی ہے ،اس سال اکتوبر میں بھی جب صوبائی حکومت کی طرف سے پتنگ بازی کی اجازت دینے کا فیصلہ سامنے آیاتوان دنوں میں ہی شہرلاہور میں ایک 21سالہ نوجوان قاتل ڈور سے لقمہ اجل بن گیا،اس کے بعد معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ، لیکن بسنت منانے شوقین اُمرا نے پیچھا نہیں چھوڑا اور پا بندی ہٹاوا کر ہی دم لیا ہے ،اس پا بند ی کے خاتمے کے بعد اُمرا بسنت منائیں گے اور غریب کے گلے پر ڈور پھر ے گی ،لیکن یہاں غریب کو پوچھتا کون ہے اور عام غریب کی جان کی قیمت ہی کیا ہے؟
اس نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر افراد پتنگ بازی نہیں کر سکیں گے‘ خلاف ورزی پر ان کے والدین ذمہ دار ہوں گے‘ اس بسنت پر دھاتی یا کیمیکل ڈور کی اجازت نہیں ہو گی ،بلکہ دھاگے سے بنی ڈور کی اجازت ہو گی‘دھاتی یا کیمیکل والی ڈور کے استعمال پر سزا مقرر کی گئی ہے‘

علاوہ ازیں پتنگ باز تنظیمیں متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس رجسٹر ہوں گی،اس کے بعدحکومت کا خیال ہے کہ ان شرائط کیساتھ ہونے والی بسنت محفوظ ہو گی‘ تاہم اندیشہ ہے کہ ایک بار پابندی ہٹتے ہی منچلے مذکورہ آرڈیننس کی شرائط و ضوابط کو بھی ہوا میں اڑا دیں گے،جیسا کہ دوسرے قوانین اور پا بندیوں کو طاقت ورلوگ ہوامیں اُڑا دیتے ہیں۔
اس سے قبل بھی ایک بار 2018ء میں بھی صوبائی حکومت نے مشروط طور پر بسنت منانے کی اجازت دی تھی، لیکن ایک درجن سے زائد افراد کی قاتل ڈور سے موت کے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا، حکو مت ایک بار پھر ٓزمائے کو دہرانے جارہی ہے اورگزشتہ گھنائونے واقعات کے باوجود بسنت کے خونیں کھیل کی کچھ پا بندیوں کے ساتھ اجازت دینے جارہی ہے،جو کہ ایک درست اقدام نہیں ہے،

اس کے بجائے حکومت کو چاہیے تھا کہ پابندی کے باوجود جو لوگ پتنگ بازی کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کو مزید سخت کیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ یہ خونیں کھیل ہمیشہ کیلئے رک سکے، لیکن یہاں تو حو صلہ افزائی کی جارہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم معاشرہ زیادہ تلخ ہوجاتا ہے، شاید بسنت کی واپسی لوگوں کو کچھ رنگ، کچھ تفریح واپس دے، مگریہ کھیل، کھیل ہی رہنا چاہیے، یہ کسی کا سوگ نہیں بننا چاہیے ،بہت سال پہلے بسنت لاہور کی پہچان ہوا کرتی تھی، اس تہوارپر نیلے آسمان پر پیلے، نیلے، گلابی پتنگوں کے رنگ لہراتے تھے، ہر گھر کی چھتوں پر ہنسی ،قہقے گو سنائی دیتے تھے،

ہر شہر کی گلیوں میں دوڑتے قدم ہوتے تھے ،اس بار ڈرہے کہ کہیں اس ہنسی میں پھر چیخیں شامل نہ ہوجائیں،اگر حکومت صرف اجازت دے کر خاموش بیٹھ گئی اور ضابطے صرف اشتہار تک رہے تو پھر بہار کے انتظارمیں شہر دوبارہ خون سے نہ بھر جائے،اس بسنت کے تہوار کو واپس لانا شاید آسان ہے، مگر بسنت کو محفوظ رکھنا سب سے مشکل کام ہے ،لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس بار بسنت کا تہوار جشن کی بہار لایا یا خطرات کی ہوا لا یا ہے،اس بسنت کے تہوار منا نے کی اجازت کے بعد ایک ہی دعاکی جا سکتی ہے کہ پتنگیں آسمان پر ضرور اُڑیں،مگر انسان بھی سلامت رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں