51

بابری مسجد انہدام کی تلخ یادیں اور ہمارا مثبت اقدام مدافعت.

بابری مسجد انہدام کی تلخ یادیں اور ہمارا مثبت اقدام مدافعت.

نقاش نائطی
. +966562677707

بعض مواقع پر بعض تاریخیں اپنے انمنٹ نقوش چهوڑ جاتی ہیں. ان میں سے ایک تاریخ 6 دسمبر 1992 کی ہے. یہ وہ منحوس دن ہے جب ہند کی سیکیولر امیج کو داغدار کیا گیا تھا. جن ہندو شدت پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کیا ان سے تو گلہ ہے ہی، لیکن ہندستان کی سب سے پرانی سو سالہ روشن تاریخ رکھنے والی سیکیولر کانگریس پارٹی کے کردار سے اس سیکیولر ہند کو جو ناتلافی نقصان ہوا وہ نہ بھولنے والا ایک عفریت انگیز باب ہے. اس وقت کے پرائم منسٹر آف انڈیا شری نرسمہا راؤ نے اندرون خانہ بی جے پی سے ساز گانٹھ کرکے نہ صرف مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا

بلکل ہند کے سیکیولر امیج کو بھی داغدار بنا گئے تھے نرسمہاراوکو اس کے لئے قدرت نے جو خاموش سزا اسی دنیا میں ہی دی اس کا مشاہدہ آزاد ہند کو اس آزاد ہند کی میڈیا نے اس وقت دکهلا دیا تھا جب ان کی مرنے کے بعد ان کے آدھ جلے شریر کو کتے بهنبهوڑ کھا رہے تھے. یہ دنیا کی تاریخ کا پہلا اندہوناک واقعہ ہوگا کہ جب کسی ملک کے سابق سربراہ کے پارتو شریر کو یوں کتے کهلم کهلا بهنبهوڑ کهارہے تھے. اور اس انهدوہناک منظر کو نیشنل میڈیا عام ہند واسیوں کو بتا کر بابری مسجد کے قاتل کا اسی دنیا میں حشر درشا رہا تھا.
دراصل بابری مسجد معاملہ کو ھندو شدت پسندوں سے زیادہ کانگریس ہی سے زیادہ نقصان ہوا تھا. اولا” ہندستان کی آزادی کے بعد اس آزاد ملک کے پہلے پرائم منسٹر جواہر لال نہروجی نے بابا امبیڈکر کے بنائے سیکیولر دستور کو بالاتفاق پاس کرکے جو جرات مندی کا ثبوت پیش کیا تھا ان کی اولاد اس آزاد ملک کی اس سیکیولر آثاث کو باقی رکھنے کی ہمت نہ دکھا سکی .آئیرن لیڈی کے نام سے ہند کی تاریخ کی سب سے طاقتور پرائم منسٹر آنجہانی اندرا گاندھی نے بھی بابری مسجد تنازع کو جوڈیشیری کے فریزر ریکارڈ روم میں یوں سڑنے کے لئے چهوڑ کر، ایک طریقہ سے ہندو واد کی مدد و نصرت ہی کی تھی.

اس کے بعد ان کے بیٹے شری راجیو گاندھی نے،اپنے ہندو ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کے لئے، ایک طرف آلہ باد ہائی کورٹ سے بابری مسجد کا تقریبا نصف صد سے بند پڑا تالا کھلواکر اور اس کے بعد ہونے والے عام انتخاب کی انتخابی مہم کا آغاز الہ باد سے کرکے اس ملک کے سیکیولر آثاث کے ساتھ کھلا مذاق اڑایا تھا یہ اسی کی سزا تھی کہ کانگریس کو اتنی بھیانک اور شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا.

کانگریس نے بابری مسجد کے سلسلے میں اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ وشواس گھات کرکے نہ صرف اقتدار کھویا بلکہ ان کے تئین مسلم اقلیت کا اعتماد بھی کھودیا ہے.اس سیکیولر ملک کے مختلف المذاہب، گنگا جمنی تہذیب، جہاں پر دنیا کے دو ڈھائی سو ممالک میں دوسرا سب سے زیادہ مسلم طبقہ آباد ہے اور جہاں پر سب سے زیادہ مساجد ہونے کا عالمی ریکارڈ بھی موجود ہے. اس ملک کو بغیر سیکیولر آثاث کے یکجا اور سالم باقی رکھا نہیں جاسکا، بابری مسجد کے منہدم مقام پر ہی دوبارہ بابری مسجد تعمیر کرکے ہندو شدت پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹ کر مسلم و دیگر اقلیتوں کا اعتماد واپس قائم کرکے ہی اس ملک کو بچایا جاسکتا تھا.موجودہ ماحول میں وائیبربنٹ گجرات کا سنہرہ خواب دکهاتے پروگریسیو انڈیا کے لبھاونے وعدوں کے سہارے دہلی کی گدی پر براجمان ہونے کے بعد ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت آر ایس ایس کے مکهوٹهے مودی جی کو انکے پونجی پتی ایڈانی امبانی کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کی سیر تفریح پر بھیج کر،ایک طرف ناگپور آرایس ایس کیڈر نے حکومت ہند کی کمان، مہاتما گاندھی کے خون سے لت پت اپنے ہاتهوں سنبهال لی ہے.

تو وہیں بحیثیت وزیراعظم ھند انکے گجراتی سنگھی پونجی۔پتیوں کو انکے ہمراہ عالم کے انیک ملکوں کے دوروں پر بھیج کر وزیر اعظم ھند کو ان گجراتی سنگھی پونجی پتیوں کا ایمبیسڈر بناتے ہوئے عالمی۔سطح کے بڑے ملٹی بلین پروجیکٹ کو ان گجراتی سنگھی پونجی پتیوں کو دلواتے ہوئے، عالمی سطح سنگھی پونجی پتیوں کو استحکام بخشنے کے راستے وا کئے ہیں۔ ارایس ایس ایک منظم حکمت عملی کے تحت، معتبر مکهوٹوں کے توصل اشتعال انگیز بیان بازی سے،اور کچه مقتدر شخصیات کے ان بیانات سے پلہ جهاڑ مہم سے، مسلمانوں کو مدافعتی اقدام پرسمیٹنے کی جو منظم کوشش ہورہی ہے. اور خصوصا ناموس رسول صلی اللہ و علیہ وسلم پر جو جسارت کی گئی ہے. وہ ایسے ہی عمل پزیر فعل نہیں ہے

.ہمیں تو لگتا ہے ناگپور ہندو شدت پسندوں کے قلعہ میں ترتیب پائے منظم سازش کا ایک حصہ ہے. صدقے جاواں ان مسلم طلبہ دیوبند و سہارنپور پر ،جنکے جوش ایمانی پر مشتمل تحریک احتجاج نے اور مسلم اخبارات کے ذریعے بروقت خبر رسانی و نیز ہمارے جذبہ ایمانی کو للکارتی تحریروں نے ، اس موضوع کو ہند بھر کے خاص وعام تک پہنچا کر مسلم اداروں و مسلم رہبران کی اس سمت خاموشی پر انہیں کٹہرے میں کهڑا کردیا ہے.
ہر واقعہ کا منفی اور مثبت پہلو ہوتا ہے. ناموس رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کے اس واقعہ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی زندگانی کے بارے میں جاننے کی تڑپ جو عام برادران وطن میں جاگے گی ایسے مواقع کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی زندگی پر طبع شد مستند سیرت کی کتابیں ، ہند میں رائج عام فہم مختلف زبانوں میں، کثیر تعداد میں طبع کراتے ہوئےمفت تقسیم کی جانی چاہئے. تاکہ برادران وطن میں آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم پر اٹھے شکوک و شبہات کا بروقت ازالہ بھی کیا جاسکے اور دین اسلام کی دعوت حق برادران وطن تک پہنچائی جاسکے.
جہاں تک ہم مسلمانوں کو اس ہند میں اپنا مستقبل محفوظ بنائے رکھنے کے لئے، خود کے لئے اور خود کی اولاد کے لئے جینے کی سوچ سے اوپر اٹھنا پڑیگا. اپنی قوم و ملت کی فکر کو اپنے گلو میں زندہ و تابندہ رکھنا پڑیگا. مسلمانوں میں موجود تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کی سعی کرنی ہوگی.اپنی صنف نازک کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا. صنف نازک کی تعلیم اس لئے بھی ضروری ہے

کہ ایک تعلیم یافتہ مرد پورے آل کی کفالت کے لائق جیسے سمجھا جاتا ہے .ویسے ایک عورت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اس کی پوری آل کو تعلیم یافتہ بنانے جیسا ہی ہے. عموماً دیکھا گیا ہے تعلیم یافتہ مرد حضرات کی آل میں، اس کی حصول معاش کی فکر میں سرگردانی کے سبب، غیر تعلیم یافتہ اولاد پائی گئی ہے.لیکن تعلیم یافتہ صنف نازک کی اولاد غیر تعلیم یافتہ بہت کم پائی جاتی ہے.
ہندو شدت پسندی کی لہر بیکراں کے آگے بے بس ہوتے، 2030 تک سوپر پاور بنے کی چاہ اپنے گلو میں لئے، ہندو شدت پسندی کی آگ میں جل کر تباہ ہوتے اس ہندستان میں ہمیں اپنے شاندار مستقبل کے لئے تانے بانے بننے پڑیں گے . خوشحال زندگی کی جنگ جیتے کے لئے تو صرف مدافعتی پینتڑوں سے کام نہیں چلیگا. اٹیک از دی بیسٹ وے آف ڈیفنس کے اصول پر عمل پیرا ہونا پڑیگا. مدافعتی جنگ کا ہمارا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قانون کو اپنے ہاتهوں میں لیکر کسی ناحق انسان کو سزا دی جائے

.اور مسلمانیت کو انسانیت کے سامنے شرمسار کیا جائے. دفاعی حربوں والی جنگ میں ذرا سی تساہلی مد مقابل کا ایک وار نہ جھیل پانے کے سبب کبھی بھی خود کو ہار سے دوچار کرسکتی ہے. اپنا مدافعت میں اٹھایا ایک قدم مد مقابل کو ہمارے مقابلے مدافعتی جنگ پراکتفا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے.
مدارس کے ثانوی آخری دو کلاسز میں مستقلاً معائنہ سے غریب و مفلوک الحال و نادار بچوں سے ہمیں روبرو کرواسکتی ہے. جنکی مستقلاً کفالت نہ صرف انہیں اپنے خویش و عقارب کے لئے روزی روٹی کی تلاش میں تعلیم ترک کرنے کے انکے ارادہ سے انہیں باز رکھ سکتی ہے. بلکہ مسلم قوم میں ماہر وکلاء کے فقدان کا مسئلہ بھی مستقلاً حل کرسکتی ہے.
ہمارے دیندار معاشرے میں ویسے بھی دنیوی تعلیم یافتگان کو ولد الحرام یا بنت الحرام کے فتووں سے روبرو ہوتے رہنا پڑتا ہے. ویسے میں پیشہ وکالت جس کے بارے میں ایک وکیل بننے پر حضرت شیطان کے صاحب اولاد ہونے کی مثالیں جس معاشرہ میں زبان زد عام ہوں، کون پیشہ وکالت سے جڑنے کی جسارت کرسکتا ہے؟ اپنے ایک ماہر وکیل کے دہشت گردی کے جهوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے

، قوم کے بچوں کی مدافعت پر، سر راہ گولی سے بھون دئیے جانے کےبعد، ایک حکمت عملی کے تحت ،اس زیر کفالت والی اسکیم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، آج چھ سالوں میں اپنے علاقے میں دس وکلاء کی ٹیم کو کهڑا کرنے میں ہمارے اسلاف نے کامیابی حاصل کرلی ہے. اگر اس حکمت عملی پر پورے ہند بھر میں پوری دیانتداری کے ساتھ عمل پیرا ہوا جائے تو یقین مانئے آئیندہ دس برسوں بعد ہند بھر کے ایوان قانون سازی میں مسلم وکلاء کی خدمات اغیار اٹھارہے ہونگے. اور مسلمانوں کو، جهوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے

اپنے لاڈلوں کی رہائی کے لئے، اپنی املاک بیج غیر مسلم وکیلوں پر تکیہ کئے اپنے لاڈلوں کی رہائی میں سالوں بتانے نہیں پڑینگے. اسی طرز پر ہم مسلم امہ اپنی جائز مانگ کو متعلقہ ایوانوں تک مناسب انداز میں پہنچانے کے لئے اپنی آزاد سیکیولر میڈیا ہاوس قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہمین مسلم دشمن ان میڈیا ہاوسز سے ناانصافی کا گلہ شکوہ کرتے رہنا نہ پڑیگا. وما علینی الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں