62

تقدیر پر قوی ایمان رکھے عمل پیرا لوگوں کو، اللہ کبھی مایوس نہیں کیا کرتا

تقدیر پر قوی ایمان رکھے عمل پیرا لوگوں کو، اللہ کبھی مایوس نہیں کیا کرتا

نقاش نائطی
. +966562677707

تقریبا”ساڑھے تیرہ سو لمبےسال، خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ سے، خلافت عثمانیہ ترکیہ تک، تین چوتھائی عالم پر، بلا شرکت غیرے، اسلامی شریعتی حکومت کرنے والے ہم مسلمان، اس وقت صلیبی مشترکہ طاقتوں کے خلاف نبزد ازماء، خلافت عثمانیہ کےخلاف، کچھ عرب قبائل کے، ہم نوائی و شراکت بعد، خلافت عثمانیہ زوال پذیر ہوتے، سکوت خلافت عثمانیہ ترکیہ بعد،عظیم خلافت عثمانیہ بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوئے، متعدد مسیحی مملکتیں اور بیسیوں مسلم و عرب مملکتوں کی صورت، معرض وجود میں آنے کے باوجود، 1923 سے 2025 تک ایک سو دو سال میں، تین چوتھائی عالم پر حکومت کررہے ہم حکمراں مسلمان، صرف اور صرف ہم ہی میں سے، بعض مسلمین کے، دشمن اسلام مسیحیوں کے مخبر و ساتھی بننے کی وجہ سے، ذلیل و رسوائی والی زندگی گزارنے، ہم مجبور ہوچکے ہیں

بظاہر تو رزاق دوجہاں کے عنایت کردہ، زیر زمین معدنیاتی دولت، پیٹرو ڈالر سے مالا مآل، پچاس سے زیادہ مسلم شاہان و جمہوری اقدار حکومتیں، زمام اقتدار چلاری ہیں، لیکن بعد سکوت خلافت اسلامیہ، اس سو سالہ زندگی میں، عالمی یہود و نصاری سازش کناں کی طرف سے، مسلم امہ ہی میں سے، بعض ضمیر فروشوں کے، انکے ساتھ ہمنوائی کرنے سے، ہم امت مسلمہ، عالم انسانیت ابادی کے کم و بیش،ایک چوتھائی حصہ تعداد ہونے کے باوجود، یہود و ہنود و نصاری کے سامنے رضالت، ذلالت و رسوائی والی زندگانی جینے مجبور ہم چھوڑے گئے ہیں۔ سات زمین کے نیچے، پہاڑی چھان تلے، انتہائی اندھیرے ماحول میں، پروان چڑھنے والے کیڑے مکوڑوں کو، وقت پر، رزق پہچوانے کا بندوبست کرنے والے، رزاق دوجہاں کے، انہیں بھی رزق حلال پہنچوانے کی صلاحیت و قدرت سے ماورا، خود کے بازوئے دم سے، اپنے اور اپنی آل اولاد کے لئے، رزق کا انتظام و اہتمام کرنے کی فکر والے، ہم عام مسلمان کو چھوڑئیے،

شاہان عرب کی اکثریت بھی، اپنی سلطنتوں کی حفاظت و بقاء، دشمن اسلام یہود ونصاری ہی پر اکتفا و بھروسہ کئے، انکے اشاروں پر ناچتے پائے جاتے ہیں۔حد تو اس وقت ہوتی ہے، مرغی تاجر کے ڈربے میں بند، ذبح کئے بیچنے کے لئے، رکھی گئی بیسیوں مرغیاں، مالک کے ڈربےمیں ہاتھ ڈالنے پر، وقتی طور، بےچیں و سراسیمہ، ڈربے ہی میں ایک کونے سے دوسرے کونے، اپنی جان بچانے، بھاگتے پائی جاتی ہیں اور مالک کے ہاتھ انہی کی اپنی ساتھی، ایک مرغی کے پکڑے جانے اور ممکنہ ذبح کئے، چمڑی ادھیڑے، ٹکڑے ٹکڑے کئے جانے کے باوجود، کچھ لحظوں بعد، خود کے بچ جانے پر غالبا” تشکر خداوندی کرتے، چوں چوں کرتے دانا چکتے، معمول مطابق زندگی گزارے جیسے لگتی ہیں۔

بالکل اسی طرح، اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات “عالم کے کسی بھی کونے میں آباد منجملہ مسلمان، ایک انسانی بدنی وجود والے، ہاتھ، پاؤں، کان، ناک سمیت متعدد اعضاء بدنی، جیسے جدا جدا رہتے ہوئے بھی، ایک ہئیت میں پروئے گئے حضرت انسان مانند ہیں” کہ چلتے، پاؤں میں گر کانٹا بھی چھبے تو، سیکنڈ سے بھی کم وقفہ میں، پاؤں کےتلوے کے مخالف سمت والے آخری حصہ میں رکھے گئے،

دماغ کو، درد کا احساس ہوتے، حضرت دماغ ہاتھوں کو، پاؤں کے پنچے میں چھپے کانٹے کو نکال، پاؤں کے پنچے کو ہونے والی تکلیف سے نجات دلانے،حکم دئیے، ہم پاتے ہیں۔ اور اللہ کی تخلیق ہزاروں لاکھوں اقسام مخلوقات میں، عقل وفہم و ادراک سے سرشار اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازے گئے ہم انسان،اور منجملہ انسانوں میں سےبھی، خالق کائنات کی طرف سے ہم انسانوں کی طرف بھیجے گئے آخری رسول محمد مصطفی ﷺ
کے احکام کو ماننے والے ہم مومن مسلمان، یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہمارے درمیان آباد ہم ہی جیسے، ہمارے آل عرب کے ایک قبیلے، فلسطینیوں پر، دو فیصد آبادی کے حصہ والے یہود کی طرف سے،ظلم و انبساط کے ریکارڈ ساز پہاڑ توڑے جاتے ہیں، ان پر سابقہ ایک سال سے لگاتار فائیٹر جیٹ بمباری کئے، بیسیوں مومن مسلمانوں کو یومیہ شہید کئے، اور ہزاروں زخمیوں کو اپنے شہدا کے غم میں نڈھال، بےگھر، بے آسرا چھوڑا جاتا ہے۔ اور ہم آس پاس آباد عرب مسلم امہ، ایسے کیسے بےحس و بے شرم جی پاتے ہیں؟

اور تو اور جس نبی آخر الزماں نے، “الکفار لااعتبار” کہتے ہوئے، ہمیں کفار مشرکین سے آمان میں رہنے کی صلاح دی تھی اور “ایک مومن کبھی ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا” کہتے ہوئے،اپنے بھروسہ کئے جانے لائق دشمن کو پہچاننے کےطریقے بتائے تھے پھر کیوں کر ہم مسلم امہ خصوصا” عرب شاہان،انہیں بار بار اپنے مکر و فریب سے ڈسنے اور لوٹنے والے یہود و نصاری کے مکر وفریب کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں؟

حکومتیں چلانا بھی کوئی آسان کام نہیں، رہی ہونگی انکی کچھ مجبوریاں کچھ مشکلیں جو انہیں امریکی سامراج کے سامنے لب مہر رہنے مجبور کئے رکھتی ہیں، لیکن جیسا کہ عالمی سطح اسلام کے نام سے سب سے پہلے وجود پانے والی مملکت، جمہوریہ پاکستان، یہود و نصاری ملکیت والے عالمی بنک قرض تلے دبے رہنے کی وجہ سے، سامراجی قوتوں کے اشاروں پر اپنی منتخبہ عوامی مقبول حکومتوں کو برخاست کئے، انکی جگہ پر سامراجی طاقتوں کے حکم کئے طوطا مینا جیسے جوکروں کو اقتدار پر بٹھائے، یہود و نصاری آقاؤں کی جی حضوری کرنا انکی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن عرب شاہوں کے دست صدا اوپر رہنے والے ہوتے ہیں اس لئے انکے دست کے نیچے رہے ہاتھ والوں کے سامنے انہیں اتنا دبے ڈرے رہے ، جی حضوری کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا ہے۔
جب کوئی انسان باوجود کوشش کے،اپنے اور اپنی آل اولاد کے لئے ، ناں نفقہ حاصل کرنے ناکام ہوجاتا ہے

تو مجبوری میں یا تو بھیک مانگے نکل پڑتا ہے یا اپنےمکر و فریب سے، کسی کو دھوکا دیئے، کچھ حاصل کرنے کی جستجو کرتا پایا جاتا ہے، یا پھر شب کی تاریکیوں میں چوری کئے یا دن کی اجالے میں، آپنے مکر و فریب یا دھونس دھمال ڈرائے دھماکئے کمزور انسان کو لوٹنے کی کوشش کرتا پایا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی فی زمانہ حربی اعتبار مضبوط ممالک، جب اپنی حکومتی لغزشوں سے معشیتی طور قلاش ہونے کے قریب ہوتے ہیں تو اپنےمکر و فریب سے یا دھونس دھمال ڈرائے،دھمکائے، کمزور ممالک کو لوٹتے اور اپنے ملکی معشیت کو سہارا دیتے پائے جاتے ہیں۔ اس جدت پسند دنیا میں، اس سے پرے ایک اور وطیرہ بھی اپنایا جاتا ہے

کہ حربی اعتبار کمزور مگر قدرتی وسائل و زخائر کے معاملے میں مالا مال، چھوٹےممالک سربراہان و شاہان کو، دوستانہ ماحول، اپنے ملک دعوت پر بلائے اور انکی عیاشیوں کے سامان مہیا کئے، انہیں عیاشیوں میں مگن کروائے، انکی عیاشیوں کی تصاویر و متحرک افلام چوری چھپے نکلوائے، بعد کےدنوں میں، انہیں بدنام و رسوا کرانےکروانے کی دھمکی دئیے، انہیں اپنے اشاروں پر نچوایا جاتا ہے۔

کیا موجودہ عرب شاہان ان حقائق سے بے بہرہ تھوڑی نا ہیں؟ کہ کیسےان یہود و نصاری اسلام دشمن طاقتوں نے،مختلف عرب ممالک و جمہوری مسلم ممالک کے کچھ جرائم پیشہ یاکہ دہشت گردانہ معاملات میں ملوث، کچھ افراد کو، ہزار حیلے بہانوں سے، اپنے یہاں عزت و ناموس کے دو مینار پر،خود ساختہ دہشت گردانہ حملوں میں استعمال کروائے، اسکا الزام مسلم ممالک پر ڈالے، کیسے اسلام دشمن یہود و نصاری سازش کنان ممالک نے، انکے اشاروں پر ہمہ وقت رقص کرتے، اقوام متحدہ ادارے کے سہارے عالمی حربی قوتوں کا گٹھ جوڑ قائم کئے، اور عالمی حربی گٹھ جوڑ مشترکہ یلغار کئے، کیسے اسی کے دہے، اس وقت کے مسلم دنیا کے طاقت ور تر افواج ممالک، افغانستان،عراق، لیبیا، شام و یمن کو تاراج و برباد کئے، قدرت کے ان خطوں کو دئیے وسائل پر غیر قانونی قبضہ کئے ان ممالک کو سالہ سال،سابقہ چالیس سالوں سے لوٹ رہے ہیں۔شام و لیبیا کے تیل کے کووں پر، سابقہ تیس پینتیس سال سے امریکی قبضہ کی خبر ان عرب شاہان سے کیا ابھی تک مخفی یے؟

مسلم امہ حربی اعتبار ایک حد تک طاقت ور تر حکمراں ممالک، افغانستان و عراق، لیبیاء، شام و یمن کو صرف تہس نہس تاراج ہی نہیں کیا گیا تھا، بلکہ دیگر عرب حکمرانوں کو ڈرائے دھمکائے، سابقہ 45 سالوں سے، کیسے اور کتنا لوٹتے اور اپنے ممالک کی معشیت کو سنبھالتے آئے ہیں یہ ہم جیسے عام فہم لوگ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ اسکی تمثیل خود ٹرمپ کے دوبارہ جیت کر آنے کے بعد، صرف اسکی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی درخواست و التجا پر، کیسے ملین و بلین ہی نہیں،کئی کئی ٹرلین سرمایہ کاری کے وعدے عرب شاہان نے، خود سے بڑھ چڑھ کر کئے تھے۔ اور عالم کے امیر ملکوں میں سب سے چھوٹے عرب ملک نے، صاحب امریکہ کو،کئی سوملین ڈالر کا ہوائی جہاز خود سے تحفہ میں دیا تھا۔

کیا یہ سب ان عرب شاہان نے،خود سے راضی برضا دئیے تھے؟ یا پس پشت انکے درمیان انہی کے بٹھائے اسرائیل کا ڈر دکھائے، ہاتھ مروڑے، خود سے پہل کئے سرمایہ کاری فنڈ کے بہانے تاوان یا انکے حفاظتی غنڈہ ٹیکس دینے مجبور کیا تھا؟ بعد کے دنوں میں، اظہار حق رائے دہی کے تحت، انہی یہود و نصاری ممالک کے دانشوروں نے، خود ساختہ توین ٹاور دہشت گردانہ حملے کی پول کھولی تھی،

کہ امریکن انٹیلینجس سی آئی اے اور اسرائیلی انٹیلیجنس موساد ہی نے مل کر، ایران عراق جنگ کے بہانے بعض عرب حکمرانوں میں بڑھتی حربی قوت کو ختم کرنے کے لئے کی تھی۔ اس وقت ان یہود و نصاری حکمرانوں کی عیاریوں کی خبر اب کے عرب شاہان تک کو، کیا نہیں پہنچی ہے؟ تصور کیجئے،اسرائیل سے دفاع کے نام پر،عرب ممالک ملکر دو سے پانچ بلین سالانہ، مختلف امداد کے نام پر بھتہ, صاحب امریکہ کو دیتے ہیں تو ان پینتیس سالوں میں، صاحب امریکہ نے، ان عرب شیوخ کو کتنا لوٹا ہوگا؟

مشہور مبلغ اسلام مولانا مودی نے، اپنی تقاریر و تفاسیر بیانات میں, اسی کے دہے میں، اس وقت کی عالمی حربی قوت روس کے ٹوٹ کر انگنت ٹکڑوں میں بٹنےاور پچاس سے زاید آزاد و خود مختار ریاستوں کے جمگھٹے یونائیٹیڈ اسٹیٹ آف امریکہ کے اپنی خراب معشیتی پالیسیز سے اکیسویں صدی کے پہلے دوسرے عشرے میں ٹوٹ کر بکھرنے کی پیشین گوئی کی تھیں۔ 1980 کے اس پاس روس والی پیشین گوئی تو پوری ہوچکی تھی۔لیکن شاید امریکن تھنک ٹینک کو بھی، اپنی معشیتی خستہ حالی کے تئیں یونائٹیڈ امریکہ کے ٹوٹ کر بکھرنے کا اندازہ تھا،اسی لئے انہوں نے 9/11 کا ڈرامہ رچے، قدرتی وسائل پیٹرول سے مالا مال کل عرب ممالک کو سازشتا” اپنی اسیری میں لئے، قدرتی وسائل پٹرول کو، پیٹرو ڈالر کا ایک نیا نام دئیے،اپنے ڈوبنے والی ملکی معشیت کو عربوں سے ملنے والے تاوان حفاظت یا ہفتہ کہ بھتہ وصولی سے، اب تک اپنی ملکی معشیت کو ڈوبنے سے بچانے کامیاب رہے ہیں۔

عالم کی سب سے بڑی حربی معشیت، کم و بیش، چالیس ٹریلین یا چالیس ہزار بلین یا چالیس کروڑ ملین ڈالر کا عالمی ملکی قرضدار ہے، اور کسی بھی بہانے سے یہ پیٹرو ڈالر من و سلوی اس تک پہنچنا بند ہوجائے تو کسی بھی وقت صاحب امریکا پہلے سے خود مختار اپنے پچاس سے زاید، ریاستوں کو ساتھ میں ملائے عظیم معشیت بنے رہنے ناکام رہ سکتا ہے،
دراصل سکوت خلافت عثمانیہ ترکیہ بعد امریکہ برطانیہ ہی نے ان شیوخ کو، سابقہ خلافت عثمانیہ کے مختلف حصوں ٹکڑوں کو مختلف ملکوں کی صورت بندر بانٹ کئے، شاہان کی صورت انہیں بٹھایا تھا اس لئے عرب ممالک صدا سے ان کے ممنون و مشکور ہی نہیں انکے ہر حکم کو ماننے ہمہ وقت تیار پائے جاتے ہیں۔ چالیس کے دہے میں جب عرب رہگزار میں پیٹرول زخائر دریافت کرلئے گئے تھے اور زیر زمین پیٹرول کو نکالنے کے ٹھیکے،

انہی امریکی و یورپی کمپنیوں کے پاس ہی تھے۔ پیٹرول دولت سے مالامال ہونے کے بعد یہ عرب حکمران یورپ و امریکہ کو آنکھیں نہ دکھانے لگیں، اسی لئے عالمی یہود و نصاری اسلام دشمن قوتوں نے، سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹتے حصے بخرے ہوتے پس منظر میں، برطانیہ کے زیر اثر والے، غریب تر ملک فلسطین میں سازشا” اسرائیل کو لابٹھایا تھا، اور اسے ہر اقسام کی عسکری مدد و تربیت دئیے، عرب ممالک کے درمیان، کسی زور آور بیل یا سانڈ کو، لگام ڈالے جیسا، پیٹرو ڈالر سے مالامال ان عرب مملکتوں کے درمیان ، ایک زور آور غنڈے کو پال پوس کر رکھا ہوا تھآ۔ اور جب جب بھی انہیں اندازہ ہوتا کہ، اعلی تعلیم و دولت کے زعم میں، یہ عرب حکمران کچھ عملا” کرنے کی بات تو چھوڑئیے صرف ان کی اسیری سے نکلنے کے خواب بھی دیکھیں تو انکے ہی اشارے سے اسرائیلی جیٹ عرب فضاؤں میں فقط پرواز کرائے، ان شیوخ کو دوڑاتے اپنے پاس بلوائے، انکی وفاداری کے عقد نؤ کروائے،

انہیں صدا اپنا اسیر و غلام بنوائے رکھا جاسکے۔ عالمی سطح امامت عالم والی امریکی پوزیشن کو، معشیتی طور مضبوط تر چین سے ٹکر والے پس منظر میں، اگر چین سے براہ امریکہ کی جنگ ہوتی ہے تو، عرب ممالک کے پیٹرو ڈالر من سکوی مسلسل ان تک پہنچتی رہے اسکے بند و بست ہی کے لئے، صاحب امریکہ کو، کسی بھی صورت،امریکی غنڈے کی شکل، اپنی پوری قوت والے آن بان شان کے ساتھ، اسرائیل کا عرب خطے میں موجود رہنا آز حد ضروری ہے۔ اسی لئے مزاحمتی طاقتوں کے مقابلے اسرائیل افواج کو ہارتا یا کمزور پڑتا جب امریکہ پاتا ہے تو اسرائیل کو بچانے عربوں کی مدد کے بہانے صاحب امریکہ مفاہمت کرنے خود پہنچ ہی جاتا ہے۔
وہ جو بات عالم میں مشہور ہے کہ اسلام دشمن یہود و نصاری اپنے مستقبل کےسو سالہ صلاح و بہود معشیتی منصوبے بناتے ہیں۔ یہ کوئی غلط مفروضہ نہیں ہے۔ دو ڈھائی سو سال تک یہود ونصاری حربی قوتیں، شروع میں خلافت راشدہ والے تسلسل سے،اپنی بقاء کی جنگ لڑتی رہیں، ایک طرف یورپ میں مشترکہ انگریز افواج کے ہاتھوں سکوت اسپین بعد، نہ صرف بغداد خلیفہ معتصم باللہ کی عیاشیوں کی وجہ، بالکہ اس وقت کے مسلمان، اسلام پر صحیح معنوں عمل پیرائی کے بجائے، بیکار کے تفکرات مسلکی بحث مباحثوں مظاہروں میں مصروف رہتے پس منظر میں، منگول حکمراں ہلاکو خان کے ہاتھوں سکوت بغداد بعد، ترکیہ سے شروع ہوئی خلافت عثمانیہ نے، پورے طمطراق کے ساتھ دوتہائی عالم انسانیت پر اسلامی خلافت کو جاری و ساری رکھا تھا. 1912 اور 1913 مختلف محاذ پر مختلف دشمن فریق سے جنگ ہورہی تھی۔

بلقان لیک ایک محاذ پر، یونان، سربیا، مونٹی نیگرو، اور بلغاریہ نے عثمانی افواج کو پہلی شکست دی تھی جس سے یورپ کے بہت سے مفتوحہ علاقوں سے عثمانی افواج کو ہاتھ دھونا پڑا تھا۔اسلامی خلافت کو، شکست فاش دینے کی حکمت عملی کا حصہ، یہود و نصاری ، پرتگال برطانیہ امریکہ جرمنی فرانس روس مشترکہ افواج کےطور خلافت عثمانیہ کے خلاف لڑرہے تھے، اپنی مشترکہ افواج حربی قوت سے پرے، دشمن یہود و نصاری کے پاس جو کاری وار والا ہتھیار تھا، دشمن فوج میں اپنے مخبر بٹھانے، انکی مدد سے، دشمن افواج، نظریاتی اختلاف والے فریق کے، آپسی اختلافات ہوا دئیے، دولت و اقتدار کے وعدے کئے، آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے مارنے مرنے پر انہیں آمادہ کرنا۔ یہی و سب سے تیز بھدف ہتھیار تھا ۔آج کے سعودی عربیہ کے کچھ حصوں سمیت حرمین شریفین کے علاقے کو حجاز کہا جاتا تھا۔

اور حجاز کے گورنر کو شریف مکہ کہا جاتا تھا۔ فی زمانہ جارڈن کے شاہ حسین کے دادا شاہ حسین اول، خلافت عثمانیہ کی طرف سے اس علاقہ حجاز کے گورنر یا شریف مکہ تھے۔ آل سعود اور آل راشد سمیت کئی ایک عرب قبائل، آپنے اپنے علاقے آزاد کرانے خلافت عثمانیہ سے لڑرہے تھے۔یہود ونصاری مشترکہ افواج نے خلاف عثمانیہ کے خلاف لڑرہے تمام مخالف دھڑوں کو بڑے بڑے وعدے اورخواب دکھائے،خلافت عثمانیہ کے خلاف، اپنے محاذ کا حصہ بنالیا اور یوں ان عرب قبائل کی غداری کی وجہ سے اور شریف مکہ کے خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت اٹھانے سے، حرمین شریفین جیسی متبرک زمین کو دونوں طرف کی مسلم افواج، خون سے لال کرنے کرانے سے بچنے ہی کے لئے, خلیفہ حمید نے بغیر جنگ و جدال ، اپنی شکست تسلیم کردی تھی اور حجاز سے نکل گئے تھے۔

یوں عرب قبائل غداری سے کمزور ہوئے خلافت عثمانیہ پر مشترکہ یہود و نصاری کی سازشوں کے شکار کمال اتاترک کی کئی سالہ کوشش کے نتیجے، میں 2022 سکوت استنبول ترکیہ وقوع پذیر ہوتے،2023 ریپبلک اف ترکیہ کے نام سے یہود و نصاری عالمی قوتوں پر نشانے والی ایک کٹھ پتلی آزاد جمہوری حکومت کا قیام ہوا تھا, یہاں اتنی تفصیل لکھنے کا مقصد ہم مسلمانوں کو، سوائے ہم مسلم غداروں کے اور کوئی زیر نہیں کرسکتا ہے۔ انگرئز افواج کے ہاتھوں23 جون 1757, نواب آف بنگال سراج الدولہ کی شکست کے لئے ذمہ دار میر جعفر ہو، 4 مارچ 1799 حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ کی شہادت و شکست کے لئے،مسلم میر صادق اور برہمن پورنیا کی غداری کا سبب بننا ہو، میر جعفر و میر صادق نیز شاہ حسین اول جیسے غداران ہی، مسلم حکومتوں کے زوال کے اصل سبب ہیں ۔

اور ہم مسلم میں آج بھی میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی کوئی نہیں ہے۔آج کےاس جدت پسند۔ اعلی تعلیم یافتہ ترقی پزیر دور میں بھی مملکتوں کو چھوڑئیے، شہروں گاؤں کی سطح پر بھی ہم مسلم امہ میں غداروں مخبروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔آج بھی ہم بحیثیت مسلم امہ اپنے درمیان پنپنے والے مخبروں غداروں کی نشوونما پر قابو پانے کامیاب ہوتے ہیں تو ہم مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں لازوال ترقی کرسکتے ہیں۔ یہود و نصاری ہم مسلمانوں میں اپنے وفادار مگر غدار مسلم امہ کیسے بٹھانے کامیاب ہوتے ہیں، ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی (حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے پروفیسر، محقق اور مترجم) کے خود لکھے قصے میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی نے اپنے پوڈکاسٹ بیان “مجموعة الإحياء والتجديد” خود بتایا ہے۔”انکے خود سازشا” 9/11 دہشت گردانہ حملے بعد، عالم بھر کی اسلامی تحریکوں کے بارے میں جاننے کے لیے، امریکی سخت خوف و تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے

۔ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے اور تعلیم حاصل کرچکے روزگار تلاش کئے، امریکہ ہی میں، مستقل رہنے والے باشعور غیر امریکی مسلم نوجوانوں کو، مسلم امہ کی مہذب انداز جاسوسی کے لئے ڈھونڈنا شروع کیا تھا۔انہی دنوں، میں ٹیکساس میں تھا۔ ایک دن ایف بی آئی کے اہلکار آئے اور کہا:-ہم ایک مترجم کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ کام کریں تو آپ کی پسند کی سہولتیں ہم دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں عربی سے ترجمہ کر سکتا ہوں، لیکن انگریزی میں ترجمہ نہیں کر سکتا، اور آپ کو لازماً دوسرا مترجم بھی چاہئے ہوگا۔”

“کچھ وقت گزرا تو وزارتِ دفاع کے انٹیلیجنس (DIA) کے لوگ پھر آئے۔ انہوں نے کہا: ہمیں ایک محقق کی ضرورت ہے جو اسلامی تحریکوں کے بارے میں تحقیق کرسکے، اگر آپ ہمارے ساتھ کام کریں تو آپ کو ان موضوعات پر تحقیق کرنی ہوگی:- اسلامی تحریکوں کی تاریخ تاسیس ، فکر، طریقۂ کار، مقاصد، نمایاں شخصیات، اثرات، اور ان سے نمٹنے کے طریقے وغیرہ… اس کے ساتھ صرف تنخواہ ہی نہیں بلکہ گرین کارڈ بھی ملے گا،لیکن میرےگرین کارڈ کی درخواست پانچ سال سے پہلے ہی کی جاچکی تھی

جو اس وقت تک التوا میں تھی۔ جیسے انہیں میری مجبوری کا علم ہو۔ میں نے جواب دیا: میں نے پندرہ سال کی عمر میں پہلی بار بجلی دیکھی تھی۔ اگر کوئی دوسرا ملے تو بہتر ہے۔انہوں نے پوچھا:- آپ کا مطلب کیا ہے؟ میں نے کہا:- مطلب یہ ہے کہ میں سادہ زندگی کا عادی ہوں۔ گرین کارڈ میرے لئے اہم نہیں۔ آئسکریم، برگر اور سینڈوچ کے بغیر بھی زندگی گزار سکتا ہوں۔مطلب صاف تھا میں بے اپنوں کے خلاف مخبری کی انکی آفر ٹھکرا دی تھے”

*جب وہ چلے گئے تو میرا گرین کارڈ کا عمل روک دیا گیا اور درخواست مسترد ہوگئی۔ وقت پورا ہونے کے بعد میں قطر آگیا۔ یہاں امریکہ سے زیادہ عزت، سکون اور اچھی ملازمت ملی۔ ترکی کی شہریت بھی ملی۔ ہر چیز امریکہ سے بہتر ثابت ہوئی۔ میں اپنی امت کے خلاف جاسوسی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے امریکہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑا، اور اللہ تعالیٰ نے، میری توقعات سے بہت زیادہ بہترین بدلہ عطا کیا”۔
“مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دن ایف بی آئی کے اہلکاروں نے مجھے ایتھوپیا کی بہترین چائے کا انمول تحفہ دیا تھا تاکہ میں انکی اسیری دل سے قبول کرلوں۔ جب میں قطر آیا تو الجزیرہ میں ایک مضمون لکھا “أزهار الشر في تكساس” (بدی کے پھول ٹیکساس میں)۔ اس میں میں نے چائے کے واقعہ کا بھی ذکر کیا تھا۔ “أزهار الشر” دراصل ایک فرانسیسی شاعر شارل بودلیئر کی کتاب کا نام ہے”۔
“ایک دن مجھے ایتھوپیا سے ایک شخص عبد الرحمن سعید نے فون کیا۔ اس سے پہلے میں اسے جانتا بھی نہیں تھا۔ اس نے کہا:- میں نے آپ کا مضمون پڑھا ہے۔ آپ کو میری زمین سے تازہ چائے ہر مہینے بھیجا کروں گا۔ آج تک وہ مجھے باقاعدگی سے چائے بھیجتا ہے، اور اب میرا قریبی دوست ہے۔امریکی انٹیلیجنس کی طرف سے پیش کردہ ایتھوپئا کی مہنگی ترین چائے کو للہ فاللہ ٹھکرانے پر، رزاق دوجہاں نے مجھے وہی قیمتی چاء مستقلا” مہیا کروائی تھی”
“اس واقعے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے لئے نقصان دہ ذاتی مفادات چھوڑ دے، تو اللہ اس کے لئے بہترین متبادل فراہم کر دیتا ہے۔ الحمد للہ کہ اللہ نے مجھے امریکیوں کی دوستی اور شیطانیت سے بچا لیا”
آج ہم اعلی تعلیم یافتہ دنیوی اعتبار عقل وعرفان سے سرشار، اپنے نبی ﷺ کے بتائے اور عمل کر دکھائے، بنیادی اسلامی عقیدے، رزق کے معاملے میں تقدیر پر قوی تر ایمان ہونے کے معاملہ میں کوتاہ تر، اپنے اور اپنی آل کے لئے بہتر سے بہتر رزق کےوسائل خودکی ذمہ داری سمجھے،بعد تعلیم حصول رزق ہی سرگرداں نظر آتے ہیں اسکے کے لئے ایک حد تک موجودہ دور کے مسلم امہ علماء کرام اور ہمارے والدین ہیں۔آج سے پچاس ساٹھ سال قبل، ہمارے بچپن میں، قبل المغرب شام کے کھانے سے فراغت بعد، ان ایام جوائینٹ فیملی والے گھرانوں میں، ذکر وانس متعدد بچوں کو ساتھ بٹھا، گھر کی نانی یا دادی اماں، بڑی آواز سے اسلامی بنیادی عقائد والے چھ کلمے رٹواتی تھیں، جس میں اللہ رب العزت کے عرش معلی پر مستوی ہونے، پیدا ہونے سے پہلے ہی، مرتے دم تک والی ہماری رزق تقدیر میں لکھ دئیے جاتے

، کسی بھی صورت متعین رزق مل کر ہی رہنےوالی بات، ہمارے معصوم ذہنوں میں، نقش سنگ جیسے منعکس کردیا کرتی تھیں۔ آج کے اس اعلی تعلیم یافتہ جدت پسند دور میں،ایک طرف ھندؤں والے عقیدے، جتنے کنکر اتنے شنکر والے باطل “وحدت الوجود نظریہ” کومنظم صوفی منصوبے کے تحت، مسلم امہ کے ذہنوں میں بٹھاتے،کمآئی والی انگریزی کہ دینی تعلیم، کمائی والی متبرک جگہ جیسے مختلف خدا کا تصور ہم مسلمانوں میں جاگزیں کیا جارہا ہے تو دوسری طرف بات بات یر یہ کہتے ہوئے، کہ اچھی تعلیم، اچھی بڑی ڈگری لئے، بہت ساری دولت کمانی ہے، یہ بات ہمارے ذہنوں میں غیر سہوا” بٹھائی جاتی ہے

کہ (نعوذبااللہ تقدیر وقدیر کچھ نہیں) “اچھا پڑھیں گے تو اچھی عزت والی رزق کثرت سے ملے گی, ورنہ زندگی بھر مزدوروں جیسی محنت کرنی پڑیگی” جدت پسند اعلی تعلیم حصول یقینی طور ضروری ہے لیکن اپنی اولاد کے ذہنوں میں اسلامی اثاثی اوصول والے تمام چھ کلمے،خصوصا”تقدیر پر ایمان والاجز، بچپن والے ناپختہ ذہنوں میں، بڑی پختگی کےساتھ منعکس کروانا یا بٹھوانا بھی ضروری ہے۔وما التوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں