اصلاحاتی ایجنڈے کا خواب !ٍ
ملک میں جہاں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بد حالی ہے ،وہیں بیڈ گور نس بھی گڈ گور نس میں تبدیل نہیں ہوپارہی ہے ، اس میں بیورو کر یسی کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، بیورو کریسی سیاسی جماعتوں کی گھر کی باندی بن چکی ہے،میرٹ کا قتل عام ہورہا ہے اوربیوروکر یسی کا کلچر بن چکا ہے کہ اچھی اور اہم پوسٹ پر تعینات ہونے کے لئے ہر حربہ آزمانا ہے، اہل سیاست کی ہاں میں ہاں ملا نا ہے، ان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ، انہیں عیش کرو انا ہے او خود بھی عیش کر نا ہے ،اس ملک میں جب تک گریڈ بیس کی پوسٹ پر گریڈ اٹھارہ کا ڈپٹی کمشنر لگایا جاتا رہے گا تو وہ کیسے پرفارم کر ے گااور کیسے گڈ گورنس لائے گا
،وہ عوام کو بیڈ گورنس کی سولی پر ہی چڑھائے گا۔اگر وطن عزیز کی 77سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ با ت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں بیوروکریٹس نے اپنی شبانہ روز محنت، ایمانداری اور ذمہ داری کو شعار بناتے ہوئے درپیش چیلنجوں کو کامیابی سے سر کیا، لیکن اس شعبے کی رفتہ رفتہ کارکردگی حرف تنقید بننے لگی اور موجودہ دور میں صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے
کہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے بیوروکریسی میں اصلاحات لانے کیلئے نئے معیارات کے تحت اعلیٰ کارکردگی کے حامل افسران کو بونس اور ترقیاں دینے کا فیصلہ کررہی ہے ،یہ اقدام اعلیٰ انتظامی شعبے میں خامیوں کی موجودگی کوظاہر کرتا ہے،جو کہ اس مملکت خداداد پاکستان کیلئے ایک المیے سے کم نہیں ہے۔
مو جودہ حکو مت جو کچھ بھی ادارتی اصلاحات کے نام پر کر نے جارہی ہے ، یہ سب کچھ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے، ہر دور اقتدار میںسول بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر مختلف حکومتیں مختلف اقدامات عمل میں لاتی رہی ہیں، لیکن بیوروکریٹک نظام ٹھیک ہونے کے بجائے اُلٹا خراب ہی ہوتا چلاگیا ہے، حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ،لیکن مختلف شعبوں میں کی جانے والی اصلاحات کبھی پروان نہیں چڑھ پائی ہیں، اس کی مین وجہ رہی ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومتوں کے دور میں شروع ہونے والی ریفارمز کو تسلسل دینے کے بجائے اُس میں کیڑے نکال کر واویلا مچائے رکھتے ہیں
اور اس طرح پولیٹیکل ویکٹامائزیشن کے سہارے اپنا اپنا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں اور عوام آئندہ آنے والی حکومتوں سے آس لگا لیتے ہیں، یوں عوام ہر دورِ حکومت میں بے وقوف بنتے رہے ہیں، اس بار بھی ویسا ہی کیا جارہا ہے۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اب نو بت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک نئے نظام کے تحت ذمہ دار افسروں کا انتخاب،کارکردگی دکھائو اور بونس ، ترقی پائو،کی بنیاد پرکیا جارہا ہے، یہ نظام سرکاری ذرائع کے مطابق متعارف کرانے کا مقصد اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے افسروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے،
اس کے نتیجے میں ہی وفاقی سیکرٹریٹ کی کارکردگی بہتر ہونے کی اُ مید با ندھی جارہی ہے ، ایک بار پھرنئے نظام کیلئے سفارشات کی تیاری کاکام خصوصی کمیٹی کو سونپ دیاگیا ہے،جو کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو سر دست بیوروکریسی میں اصلاحات لانے کیلئے حکومت متذکرہ اقدام تو بروئے کار لارہی ہے،لیکن اسے پائیدار قرار نہیں دیا جاسکتا ، کیو نکہ درپیش صورتحال کے پس پردہ عوامل کا پتہ ہی نہیں لگایا جارہا ہے ،اس میں سب سے پہلے پس پردہ ان عوامل کا بھی بغور جائزہ لینا چاہئے ،جو کہ نچلی سطح تک بدعنوانی،اقربا پروری اور غیر ذمہ دارانہ رویوں پر مشتمل ایک غیرقانونی متوازی نظام کے مترادف ہے،اس کے بعد ہی اصلا حاتی ایجنڈا کا گر ہو پائے گا ، ورنہ ساری کار گزاریاں ماضی کی طرح دہری دہری ہی رہ جائیں گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ادارتی اصلا حات ہو نی چاہئے ،حکو متی مفاد کے بجائے عوامی مفاد میں ہو نی چاہئے ، اس کیلئے ضروری ہے کہ گزارشات میں عوام کی آراء بھی شامل کی جائیں ، کیو نکہ اداروں سے زیادہ پا لا عوام کا ہی پڑتا ہے ،عوام کو ہی اداروں میں دھکے پڑتے ہیں، ادارتی اصلاحات میں ادارتی اہل کاروں کی سوچ بھی بدلنا ہو گی ، اعلی عہداروں کو اپنی سیٹ پر بیٹھ کر نا خدا بنے کے بجائے اپنا رویہ بدلنا ہو گا
اور سو چنا ہو گا کہ قدرت نے انہیں ملک اور عوام کی خدمت کا موقع دیا ہے، لہذا ان کو چاہیے کہ اپنے مناصب سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے عام آدمی کے لئے معاون اور سازگار ماحول پیدا کریں اور ان میں بیوروکریسی کا خوف ختم کریں، تاکہ ان کے بارے میں عوامی تاثر زائل اور عام رائے تبدیل ہو اور محکموں میں آنے والے لوگوں کے مسائل بروقت حل ہوتے رہیں،اگر ادارتی اصلاحات کے ساتھ ادارتی سوچ کو نہ بدلا گیا تو ہراصلاحاتی ایجنڈے کی کا میا بی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔