44

ایک نئے سفر کی بنیاد رکھنی ہے!

ایک نئے سفر کی بنیاد رکھنی ہے!

ملک میں سیاسی انتشار اپنے عروج پر ہے اور اہل سیاست ایک دوسرے کو مو الزام ٹہرائے جارہے ہیں ، جبکہ اس کے دونوں ہی ذمہ دار ہیں ، اپوزیشن کیلئے عمران خان کی رہائی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور حکو مت کیلئے عمران خان کو سیاست سے نکالنے سے بڑا کوئی مسئلہ نہیںہے ، اس جنگ میں عوام پس رہے ہیں

اور ملک دنیا بھر میں بدنام ہورہا ہے ، لیکن اس کا کو ئی احساس کررہا ہے نہ ہی کوئی اپنی ذمہ داری قبول کررہا ہے،بلکہ ایک دوسرے پر ہی ڈالے جارہا ہے،اس سے الجھے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے ہی جارہے ہیں ۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ اہل سیاست اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے میں ہی ناکام ثابت ہور ہے ہیں،یہ ملک کے درینہ مسائل کاحل تلاش کرنا تو در کنار‘ ان کے ادراک کی صلاحیت سے بھی محروم نظر آتے ہیں، اس لیے ہی مسائل میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ، ایک طرف معاشی بد حالی نے ملک کو قرضوں میں جکڑ رکھا ہے تودوسری جانب مہنگائی بے روز گاری نے عوام کا جینا عذاب بنا رکھا ہے

، اس جانب حکومت کی تو جہ ہے نہ ہی اپوزیشن دیکھ رہی ہے ، بلکہ احتجاج کر نے پر ہی زور دیے رہی ہے ، ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایک دن کے احتجاج سے ملک کو روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ،
ایک ایسا ملک جو سات ارب ڈالر کے قرض پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کی سخت ترین شرائط پوری کرنے پر مجبور ہے‘ کیاایک دوسرے سے دست و گر یباں ہو کر، سیاسی احتجاجوں کے لیے ملک کو بند رکھ کر ہر روز اتنے بڑے نقصان کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس جا نب حکو مت تو جہ دیے رہی ہے نہ ہی اس پر اپوزیشن غور کررہی ہے ، جبکہ آئی ایم ایف سمیت متعدد عالمی ادارے پاکستان کو معاشی استحکام کی راہ میں سیاسی بے یقینی اور سماجی تنائوکے خطرے سے خبردار کر تے چلے آرہے ہیں،

اس ملک کی ترقی و خوژحالی کاسفر تب تک شروع نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ سیاسی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جائے گا، کیونکہ کسی بھی ملک کی معیشت وہاں کے سیاسی اور سماجی نظام میں ہی پیوست ہوتی ہے،سرمایہ کار صرف وہاں پر ہی سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتا ہے جہاں اس کو نہ صرف جان ومال کے تحفظ کا احساس ہو، بلکہ یہ بھی تسلی ہو کہ اس کا معاشی منصوبہ کسی سیاسی اتھل پتھل کی نذر نہیں ہو جائے گا۔
دنیا میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی ہے کہ کسی ملک نے سیاسی استحکام کے بغیر ترقی کا سفر طے کیا ہے، ملک کی پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل ،سیاسی استحکام ہی کے ذریعے آتا ہے اور اس کے ذریعے ہی امن و امان قائم ہو تا ہے ، یہ امن و امان اور سیاسی استحکام سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں

اور اس سے ہی ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کے بر عکس کیا جارہا ہے ،حکو مت اور اپوزیشن کی جانب سے مہم جوئی کو ہی فروغ دیا جارہا ہے ، اس سیاسی مہم جوئیوں کا نتیجہ ہم بار ہا دیکھ چکے ہیں اور اس بار بھی دیکھ رہے ہیں ، لیکن اس سے سبق حاصل نہیں کررہے ہیں ،اس روش پر اب فل سٹاپ لگا ہو گا اور کوئی مفاہمت کا راستہ نکالنا ہو گا ، ورنہ ہم سب کچھ ہی گنوا بیٹھیں گے ۔
اب بھی وقت ہے کہ ایک دوسرے کو گرانے ، راستے سے ہٹانے اور دیورا سے لگا نے کی روش کو بدلا جائے،ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھا جائے اور سارے ہی الجھے معاملات کو باہمی مشاورت سے سلجھایا جائے ،اس میں مقتدرہ کو بھی معاونت کر نی چاہئے ، مل بیٹھ کر معاملات حل کر نے کی اجازت دینی چاہئے

، کیو نکہ اُن کے اشارے کے بغیر بیٹھا جائے گا نہ ہی الجھے معاملات کا کوئی حل تلاش کیا جائے گا ، اس حوالے سے ماضی میں جو کچھ بھی ہو چکا‘ اسے پیچھے چھوڑ کر آج ایک نئے سفر کی بنیاد رکھنی ہے ، انہیںشکل حالات میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے ، اس بنیاد میں اہل سیاست کے ساتھ اہل ریاست نے بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہے، پوری قوم بڑی بے چینی سے اپنے رہنماؤں اور محافظوں کی جانب دیکھ رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں