57

اپنابویا ہی کاٹنا پڑتا ہے!

اپنابویا ہی کاٹنا پڑتا ہے!

ملک میں ایک طرف بڑھتی فضائی آلودگی سے عوام پر یشان حال ہیں تو دوسری جانب مہنگائی نے عوام کا جیناعذاب بنا رکھا ہے ، لیکن حکو مت کی تر جیحات میں عوام ہیں نہ ہی عوام کے مسائل کا تدارک دکھائی دیے رہا ہے ، حکو مت کی ساری تو جہ ایک کے بعد ایک آئینی تر امیم لا نے اور مختلف بل منطور کرانے پر ہی مر کوز ہے ،اس پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے کی علمبردار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایسا ایکٹ پاس کر رہے ہیں ،جو کہ اپنے ہاتھوں سے جمہوریت کے چہرے پر کالک لگانے کے مترادف ہے۔
اتحادی حکومت خود کو بچانے اور اپنی حکو مت چلانے کیلئے ایسا ہر کام کر گزرہی ہے ،جو کہ اس سے کہا جارہا ہے ، پہلے چھبیس ویں آئینی ترمیم منطور کرائی گئی اور اب کابینہ میں منظوری کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ نے تمام سروسز کے سربراہان کے عہدوں کی مدت تین کی بجائے پانچ سال کرنے کا بل منظور کر لیا گیاہے،

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں 9سے بڑھا کر 12 کر دی گئی ہے،اس قانون سازی کے خلاف اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کر ہے ہیں ،جبکہ عوام بے بسی سے دیکھ رہے ہیں ، عوام کر بھی کیا سکتے ہیں ، عوام سے تو اظہارے رائے کا حق بھی چھینا جارہا ہے ۔اس حکو مت کے اتحادیوں نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہے نہ ہی کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ، اس لیے ہی پرانی غلطیاں دہرائے جارہے ہیں ،یہ عدلیہ میں تبدیلیاں یا ججوں کی نامزدگیاں اور سروسز کے سربراہان کے عہدوں کی مدت تین سے پانچ سال کرتے بھول رہے ہیں

کہ ماضی میں ان کے ساتھ کیا ہو تا رہا ہے ، اس بار بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا ، لیکن جا نتے بو جھتے ہوئے ویسا ہی کیا جارہا ہے اور اپنا سب کچھ دائو پر لگایا جارہا ہے ، اس کے علاوہ اتحادیوں کے پاس کوئی آپشن بھی نہیں ہے ، ایک طرف گھڑا ہے تو دوسری جانب گہری کھائی ہے ، یہ جد ھر بھی جائیں گے ،انہیں گرنا ہی پڑے گا ، آج نہیں تو کل حکو مت سے نکلنا ہی پڑے گا ۔اتحادی اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں نہ ہی اپنے اقتدار کا کوئی حساب دینا چاہتے ہیں، اس لیے ہی ہر آزمائے تجر بے کا حصہ بن رہے ہیں ،

اس بار جو سیاسی تجربہ کیا جا رہا ہے، وہ سابقہ دورمیں ہونے والے تجربے سے کچھ مختلف نہیں ہے، اس کے تحت ہی ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو سیاست سے نکال باہر کرنے اور تحریک انصاف کو اقتدار میں لا نے کا منصوبہ بنایا گیا ، پہلے مرحلے میں عمران خان کو نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف استعمال کیا گیا اور پھر معیشت بچانے کے نام پر ایک نئی تبدیلی کے لیے نواز شریف اور آصف زرداری کا کاندھا عمران خان کے زوال کے لیے استعمال کیا گیا ہے، یہ سارے ہی ایک دوسرے کو گرانے اور خود کو آگے لا نے کیلئے کل بھی استعمال ہو تے رہے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔
اگر شہباز شریف کی قیادت میں جاری موجودہ نئے تجربے کو ماضی قریب کے حالات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی جائے تواس میں بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو رہا ہے ، ایک طرف مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے طور پر ’کارکردگی‘ دکھا کر ملک کی آئندہ وزیر اعظم بننے کے لیے ’کوالی فائی‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں

تو دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری کووزیر اعظم دیکھنا آصف زرداری کا دیرینہ خواب ہے اور وہ اس خواب کی تکمیل کے لیے کسی بھی جوڑ توڑ پر راضی ہیں،یہ دونوں ایک دوسرے کاساتھ ہو تے ہوئے بھی ساتھ نہیں ہیں ، ہر کوئی بد لتے حالات میں اپنے لیے ہی موقع تلاش کررہا ہے اور مقتدرہ کو یقین دلا نے کی کوشش کررہا ہے کہ اس سے بھی بہتر ثابت ہو سکتا ہے ،اس سے بھی زیادہ سر دھڑ کی بازی لگا سکتا ہے

اور اُن کی ہی مر ضی کے مطابق معاملات چلا سکتا ہے ۔اس میں کو ئی دو رائے نہیں ہے کہ اتحادیوں کا اتحاد اپنے مفادات کے تابع ہے اور اپنے حصول مفاد میں ہی چل رہا ہے ، اس کے آڑے تحریک انصاف قیادت آرہی ہے اور اس کے خوف نے ہی اتحادیوں کی نیدیں حرام کررکھی ہیں ،شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری پورے جوش و خروش سے ایک ایسا قانونی جال تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جوکہ تحریک انصاف کو پھانس سکے اور عمران خان کا سیاسی راستہ روک سکے، لیکن یہ سب کچھ کر تے ہوئے

یقین کر نے پر آمادہ نہیں ہیں کہ جو قوت آج ان کی سر پر ستی کررہی ہے، وہ کل کلاں کسی دوسرے کی طرف راغب نہیںہو سکتی ہے اور جو ترامیم دوسروں کو پھنسانے کے لیے متعارف کرائی جا رہی ہیں، کل کلاں حالات پلٹنے پر اپنے ہی پائوں کی زنجیر نہیںبن سکتی ہے، ایک سادہ سی بات ہے کہ جو کچھ مر ضی اپنے مفاد میں بدل لیں ، عدالتی نظام یا سیاسی نظام ،مگرقدرت کا نظام واضح اور شفاف ہے کہ جو بوئو گے وہی کاٹنا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں