تیسری خواہش
جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
قاسم آج بہت خوش تھا اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی اس کے بس میں ہوتا تو وہ اڑ کر اپنے پیاروں کے پاس پہنچ جاتا وہ سوچنے لگا نہ جانے میری بیٹی فاطمہ کتنی بڑی ہوگئی ہو گی ،عبدالرحمن کو تو شایدمیں پہچان بھی نہ پائوں لیکن اکثرلوگ کہتے ہیں وہ ہوبہوباپ پر گیاہے۔۔پھر مجھے پہچاننے میں بھلاکیا دقت ہوگی میں تو سینکڑوں میں اپنے بیٹے کو شناخت کرسکتاہوں رضیہ تو یقینا ناراض ہوگی
وہ جب جب ناراض ہوتی تو اس کی کوشش ہوتی کہ قاسم اسے مناکراپنی باہوںمیں لے لے رضیہ کا خیال آتے ہی اس کے دل میں سوزو گداز مچل مچل گیا او رچاہت کی چاشنی جیسے من میں حلول کرگئی ہو جیسے جذبے پھرسے جوان ہوگئے ہوں اس کے چہرے پرایک دل آویز مسکراہٹ پھیل گئی ۔قاسم ایک لوہارتھا نیزے بھالوں بنانے کا بہترین کاریگر،صوم صلوٰۃ کا پابند ،ہمدرد اور خوف ِ خدا رکھنے والا انسان۔ وہ جنگی ساز وسامان بنانے کے ٹھیکے لیا کرتاتھا وہ کئی سال ہرات میںکام کرنے کے بعدنیشاپورواپس اپنے گھر آرہاتھا
ان دنوںعبداللہ طاہر خراسان کے گورنر تھے جو انصاف پرور تو تھے ہی لیکن انتہائی سخت گیرہونے کے باوجود عوام کی آسانی کے لئے بہترین اقدامات کرتے رہتے تھے اور نیشاپور خراستان کا دارالحکومت تھاقاسم کی منزل بھی یہی تھی اس نے رات کے پچھلے پہر سفر کرنا شروع کیا۔ عبد اللہ طاہر نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ شہر کے راستوں کو محفوظ بنائیں تاکہ کسی مسافر کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اس لئے سرکاری اہلکارگشت کرتے رہتے تھے ۔قاسم سوچنے لگا پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے انسان کونہ جانے کتنے جتن کرناپڑتے ہیں یہ لوگ کیا جانیں اپنوں سے جدائی کتنی خوفناک چیزہے دن تو گذرجاتاہے لیکن رات کی تنہائی میں اپنے پیارے یاد آتے ہیں تو آنکھیںساون بھادوں بن جاتی ہیں دل صندل کی آگ کی طرح سلگتاہے تو جیسے پورا جسم دھواں دھواں ہونے لگتاہے
اب نیشاپور میں ہی کوئی چھوٹاموٹاکام کرلوںگا اپنوںکی جدائی اب برداشت سے باہرہے اپنے اس فیصلے سے قاسم کے دل کو بڑا سکون ملا مسافت کی تھکاوٹ کے باوجود وہ تیز تیزقدم اٹھانے لگا اچانک اسے شور سنائی دیا رات کی تاریکی میں تھوڑاساشور بھی ماحول پر غالب آجاتاہے پھر بھاگتے قدموںکی آواز قریب آنے لگی اس نے مڑکر دیکھا تو سپاہی کسی کا تعاقب کرتے آرہے تھے وہ رک گیا اسی اثناء میں ایک شخص اس سے زورسے ٹکرایا اور تاریکی میں کہیں گم ہوگیا قاسم اس کی ٹکرسے زمین پر گرگیا
اس دوران نہ جانے کدھرسے ایک سپاہی نمودارہوا اور اس نے قاسم کو زورسے پکڑ لیا پھر کچھ اور سپاہی میں آناًفاناً آن پہنچے جنہوںنے 3چوروںکو ہتھ کڑیاں لگائی ہوئی تھیں سپاہیوںنے آئو دیکھا نہ تائو قاسم کو بھی لوہے کی زنجیر پہنا دی قاسم نے انہیں بڑا سمجھایا،رویا منت سماجت کی میں چورنہیں ہوں۔۔میں ان کا ساتھی نہیں میں ہرات سے آرہاہوں فلاں علاقے میں میرا گھرہے لیکن سپاہیوںنے اس کی ایک نہ سنی۔ان چوروںنے شہرکے مضافاتی علاقوںمیں بڑا اندھیرمچایاہواتھا لوگ تو لوگ شہرکے منتظم بھی ان سے عاجز آئے ہوئے تھے
جس روزقاسم گھرواپس آرہاتھااتفاق ایسا ہوا کہ سپاہیوں نے اسی رات چند چوروں کو گرفتار کیا ا وہ انہیں تھانے لے کرجارہے تھے اچانک ان میں سے ایک چور بھاگ گیا۔ اب یہ گھبراگئے اگر امیر کو معلوم ہوگیا کہ ایک چور بھاگ گیا ہے تو وہ ہمیں اس نااہلی کی ضرور سزا دے گا انھوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر گنتی پوری کرنے کیلئے بیگناہ قاسم کو گرفتار کرلیا اور باقی چوروں کے ساتھ اسے بھی داروغہ کے سامنے پیش کردیا
۔قاسم نے داروغہ کو بھی اپنی بے گناہی کے لئے دہائی دی اس نے نیندسے آنکھیں ملتے ہوئے رات کے آخری پہر مزید کسی تفتیش و تحقیق کے بغیر سب کو قید کرنے کا حکم دیا کہ ان کا چالان بناکرقاضی کی عدالت میں پیش کردیا جائے۔ قاسم بے بس،لاچار اور مجبور ہوگیا کہ کوئی اس کی ایک بھی سننے کو تیارنہ تھا اس نے چوروں سے کہا ’’ تم سب جانتے ہو میں تمہارا ساتھی نہیں پھر تم نے داروغہ کو حقیقت کیوں نہیں بتائی؟
’’ ہم کیوں بتائیں۔۔ بڑی بڑی مونچھوں والے چور نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا’’میں نے تمہاراکیا بگاڑا تھا ۔۔قاسم نے پھرالتجاکی خدا کے لئے داروغہ کو سچ سچ بتادو میرے بچے میرا انتظارکررہے ہیں۔
’’ہم نہیں بتاسکتے دبلے پتلے چورنے سرگوشی کے سے اندازمیں کہاجیسے وہ بہت بڑا راز آشکارکرنے لگاہو۔۔ مال ۔۔سونا چاندی تو اس کے پاس ہے جو بھاگ گیا۔
’’ ہماری جب بھی جان چھوٹی تیسرے نے مسکراتے ہوئے قاسم کے کان میں کہا ہمیں ہمارا حصہ مل جائے گا لیکن تم مفت میں قربانی کے بکرے بن گئے ہو۔۔ہا ہا ہا
قاسم نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے اللہ رسول کے واسطے دئیے لیکن چوروں نے اس کی باتیںہنسی ٹھٹھے میں اڑا ڈالیں وہ سمجھ گیا یہ عادی مجرم ہیں میں ان کی جتنی منتیں کرتاہوں یہ اتنا ہی ایک دوسرے کے ہاتھوںپر تالیاں مارتے ہوئے سنی ان سنی کردیتے ہیں۔۔ وہ سوچنے لگا میں نے کبھی کسی کو دھوکانہیں دیا۔
کسی سے ظلم نہیں کیا کسی کا مال نہیں ہتھیایا میرے ساتھ یہ کیاہوگیا۔اس نے دل ہی دل میں کہااب میں اپنا معاملہ اللہ جل شانہ کے سپردکرتاہوں اس کی بارگاہ میں اپنا مقدمہ پیش کرتاہوں وہی نبی پاک ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے میرا مسئلہ حل کرسکتا ہے قاسم نے وضو کیا اور قید خانہ کے ایک گوشہ میں اللہ وحدہ ـ‘ لاشریک کے حضور سجدے میں سررکھ دیا اس کی آنکھوں سے آنسو نکل نکل کر قید خانے کی زمین میں جذب ہونے لگے۔قاسم ہر دو رکعت نوافل کے بعد سر سجدہ میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رقت انگیز دعائیں اور دل سوز مناجات میں رو رو کر پکارتا ۔ ’’ اے میرے مالک! تو اچھی طرح جانتا ہے
میں بے قصور ہوں‘‘ مجھے اس قیدسے نجات عطافرما تو جانتاہے یوسف علیہ السلام بھی بے گناہ تھے مجھے اپنے جلیل القدرپیغمبر کے صدقے اس اسیری سے رہاء دلا‘‘ ’’اے باری تعالیٰ میں تیرے حبیب پاک ﷺ کاایک ادنی سا امتی ہوں ان کے قدموں کی مٹی کے طفیل میری دادرسی فرما‘‘۔اسی رات کو اچانک امیر ِ خراستان عبد اللہ طاہر کی آنکھ کھل گئی اس کا پورا جسم پسینے میں شرابورتھا آنکھ کھلنے کی وجہ ایک خواب تھا اس نے خواب دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑے تخت پر بیٹھاہواہے چار طویل القامت پہلوانوںنے اس کے تخت کے چاروں پایوں کو پکڑکر اٹھایاہوا ہے وہ انتہائی غصے سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں
اورپھروہ اس کا تخت الٹنے لگتے ہیں کہ اتنے میں اس کی نیند ٹوٹ گئی آنکھ کھلتے ہی میر ِ خراستان عبد اللہ طاہر بستر سے اٹھ بیٹھا اس نے فوراً لَاحَولَ وَلَا قْوَّتَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھا۔ پھر وضو کیا اور اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں دو رکعت نماز ادا کرکے رہنمائی کی التجا کی یقینا دنیاکا ہر شاہ و گدا اپنی اپنی پریشانیوں کے وقت اسی ذات ِ حق سے رجوع کرتاہے۔نہ جانے کتنے دیرتوبہ استغفارکرتے ہوئے امیرِ خراستان کو جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی پھر وہی خواب دیکھا کہ چار پہلوان اس کے تخت کے پایوں کو پکڑ کر اٹھاتے ہیں
اور الٹنا چاہتے ہیں کہ وہ بیدارجاتاہے۔امیر خراسان عبد اللہ طاہر اب گھبرا گیا اور انہیں یقین ہوگیا کہ ضرور اس کی حکمرانی میں کسی بے گناہ پر ظلم ہورہاہے وہ کانپ کانپ گیا۔امیر خراسان نے اسی وقت داروغہ اور جیلر کو طلب کر لیا ان آتے ہی بے تابی سے استفسارکیا کہ ’ تم لوگوںنے کسی بے گناہ یا مظلوم کو ! تو جیل میں بند نہیں کررکھا ؟
’’حضور آج تک ایسا نہیں ہوا داروغہ نے کہا ہماری کسی سے کوئی پرخاش تو نہیں ہوتی قصور وارکو ہی گرفتارکیا جاتاہے ‘‘
’’ نہیں ۔۔ امیرخراستان نے سرنفی میں ہلاتے ہوئے کہا ضرور تم لوگوںسے کوئی بھول چوک ہوگئی ہے جیلر تم بتائو جیل میں کوئی غیرمعمولی یا انہونی بات تو نہیں ہوئی‘‘
’’ عالیجاہ! میں یہ تو نہیں جانتا کہ مظلوم کون ہے اس نے عرض کی میں قسم کھاکر کہتاہوںآج تک کسی بے گناہ کو قیدنہیں کیا‘‘
’’پھر بھی۔۔امیر ِ خراستان عبد اللہ طاہرنے بھاری لہجے میں پوچھاذہن پر زوردو کوئی خاص بات کوئی معمول سے ہٹ کر واقعہ؟
ہاں جیلر سوچتے ہوئے کہا جناب گذشتہ رات 4چورپکڑے تھے لیکن خاص بات یہ ہے کہ ان کے ایک ساتھی کو میں نے کئی بار دیکھا ہے جو جیل میں نماز پڑھتا ہے اور رقت انگیز و دل سوز انداز میں دعا کرتا رہتاہے۔
امیر نے حکم دیا: اسے ابھی اور اسی وقت حاضر کیا جائے میں اس کے آنے تک بسترپربھی نہیں لیٹوںگا۔ تھوڑی دیر بعد قاسم کوامیر ِ خراستان عبد اللہ طاہر کے روبرو پیش کردیاگیا۔امیرنے اسے دیکھا وہ کسی بھی طورسے چورنہیں لگ رہاتھا لیکن اسے ساتھیوں سمیت پکڑا گیا تھا امیر خراستان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور عجیب سے انداز میں کہا چوری بھی کرتے ہو اور نمازیں بھی پڑھتے ہو کیسے چور ہو؟
’’جناب میں چورنہیں ہوں قاسم نے بڑی عاجزی سے جواب دیا آپ چاہیں تو معاملہ کی تحقیق کروا لیں‘‘ ضرور امیر ِ خراستان عبد اللہ طاہر نے جواباً کہاتم نہ بھی کہتے تو ہمارا تو یہی ارادہ تھا خداکی قسم جب تک دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہ ہوجائے میں چین سے نہیں بیٹھوں گا
’’ایسا کریں امیرنے داروغہ کو حکم دیا جن سپاہیوں نے چور گرفتارکئے تھے ان کو فی الفور یہاں طلب کریں اور اس کے چورساتھیوںکو بھی ابھی کے ابھی۔۔ اسی اثنا ء میں فضا میں آذان کی سرمدی آواز گونجی جواس بات کااعلان ہے کہ سدا بادشاہی اللہ وحدہ‘ لاشریک کی ہے وہ جسے چاہے عزت سے نوازدے۔ نمازِفجرکی ادائیگی کے دوران سب حاضر تھے امیرنے سپاہیوںکو سختی سے پوچھا سچ سچ بتانا یہ شخص واقعی چوروںکا ساتھی ہے انہوںنے ڈرکے مارے فوراً اقرارکرلیاکہ ایک چورفرارہونے میں کامیاب ہوگیا
تو ہم نے گنتی پوری کرنے کے لئے اس راہگیرکو دھرلیا ۔’’ ان سپاہیوںکو ملازمت سے فارغ کرکے ایک ماہ ایک ماہ کے لئے قید ِ بامشقت کی سزا دی جائے میر ِ خراستان نے حکم دیاتاکہ آئندہ کوئی بے گناہوںپرظلم کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ اب داروغہ نے چوروں سے دریافت کیا کہ کیا قاسم واقعی تمہاراساتھی ہے ۔انہوںنے نفی میں سر جھکا دئیے قاسم کی بے گناہی ثابت ہوچکی تھی وہ وہیں سجدے میں گرکراللہ کا شکراداکرنے لگا جس نے اسے قیدسے نجات دلائی ۔
’’ آج سے آپ میرے منہ بولے بھائی ہیںا میر ِ خراستان عبد اللہ طاہر نے قاسم کو محبت سے گلے لگاتے ہوئے کہا یقین ہے کہ آپ میری 3 خواہشیں مان کر مجھے عزت بخشیں گے نمبر1 جوکچھ آپ کے ساتھ ہوا تہہِ دل سے مجھے معاف کردیں۔نمبر2۔ میری طرف سے ایک ہزار درہم قبول فرمائیں۔اورنمبر3۔ جب بھی آپ کو کسی قسم کی پریشانی درپیش ہو تو میرے پاس تشریف لائیں آپ کے کام آکرمجھے حدسے زیادہ خوشی ہوگی۔
قاسم نے کہا: میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطرآپ کو معاف کردیا مجھے آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں میرا جیل جانا مشیت تھاشاید میری آزمائش بھی شکرہے اس ذات بابرکات نے مجھے اس میں سرخرو کیا یقینا وہ اپنے بندوںپراتنا کرم کرتاہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں دوسرا میں نے آپ کی محبت،عوام پروری اور انصاف کی خاطر ایک ہزار درہم قبول کر لئے لیکن تیسری خواہش کو پوری کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔
’’وہ کیوں؟ ا میر ِ خراستان عبد اللہ طاہر نے استفسارکیا لگتاہے آپ دوبارہ میرے پاس آنانہیں چاہتے ۔
’’ ایک انصاف پرور حکمران نے مجھے اپنا منہ بولا بھائی بنا لیاہے قاسم نے مسکراتے ہوئے کہامیں ضرور اس سے تعلق رکھنا چاہوں گا اپنے بھائی کے پاس بار بار آنا پسند کروں گا۔
’’ پھر تیسری خواہش پوری کرنے میں کیا امرمانع ہے امیر بولے
’’یہ اس لئے نہیں ہوسکتاکہ؟ قاسم نے جواب دیا کہ وہ خالق و مالک جل جلالہ‘ جو مجھ جیسے فقیر پرتقصیرکیلئے کسی حکمران کا تخت الٹانے کی وارننگ دے کرچھوڑ دینا اور اپنی ضرورت کسی دوسرے کے پاس لے جانا بندگی کے اصول کے منافی ہے۔ جب میراکارساز میرے ساتھ ہے تو مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔
’’قاسم تو نے سچ کہا امیر ِ خراستان نے اس کے کندھے پرہاتھ رکھ کر کہا جس کے ساتھ کارسازہواسے واقعی کسی اور کا محتاج نہیں اب تم جلدی سے اپنے گھر جائو آج ہی کے دن سواری بھیجوںگا تاکہ میں تمہارے اہل ِ خانہ کی میزبانی کا شرف حاصل کرسکوں (ایم سرور صدیقی کی زیر طبع کتاب تاریخ کے گمشدہ اوراق کے چند اوراق )