شیعیوں پرشک شبہ کرنے والے، پہلے آزادی قبلہ اول پر اپنا مقام و تفکر وعمل تو ثابت کریں
ترتیب ترجمہ و ترسیل ابن بھٹکلی
پورے عالم کو تیسری عالمی جنگ میں زبردستی دھکیلتے، نازی اسرائیل کے عزائم تعمیر گریٹر اسرائیل منصوبہ بند سازش لاحیہ عمل اور فلسطینی لبنانی مسلمانوں پر یلغار غاصبانہ باوجود، سنی مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اوپر سے شیعہ حکمرانوں پر انگشت کشی پس منظر میں المحترم غزالی صاحب کے مضمون کو عام افادیت مسلم امہ ہم کچھ ترتیب کے ساتھ پیش کررہے ہیں:- ابن بھٹکلی
بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اسرائیل پر ایرانی میزائلوں کا داغا جانا ملی جلی سازش تھی۔ سب کچھ سامنے ہوتے ہوئے بھی کوئی دیکھنا اور سمجھنا نہ چاہے تو ایسے لوگوں پر افسوس اور ان کی ہدایت کے لئے دعا کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟بہت سے احباب ایران کے نا قابل بھروسہ ہونے کے لئے تاریخی حوالے دے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ شامی صدر بشار الاسد کو دی گئی ایرانی مدد اور اس کے مظالم میں ایرانی تعاون یاد دلا رہے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جب ایرانی تاریخ کا وہ باب یاد آتا ہے تو آج بھی خون کھولتا ہے۔ میں نے اس وقت بھی ایک مفصل مضمون اپنے بلاگ پر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھا تھا اور آجھ بھی ایران کی اس ذلیل حرکت کی مذمت کرتا ہوں۔
مگر ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ بین الاقوامی سیاست میں حکومتیں،ہر جگہ مذہب اور مسلک نہیں دیکھتیں۔ آزربائیجان کے مسئلے پر ہی دیکھ لیں کہ شیعہ ہونے کے باوجود ایران ان کے مسئلے پر خاموش رہتا ہے اور ترک صدر اردغان کے نزدیک وہ دو ملک مگر ایک قوم ہیں۔
جہاں تک مسلہ فلسطین کا تعلق ہے، یہ نہ بھولیں کہ قبلہ اول سے ان کی بھی وہی عقیدت ہے جو ہماری ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ اور یاد دلادوں۔ ۱۹۸۸ میں لعنتی سلمان رشدی نے جب بدنام زمانہ کتاب ’سیٹانک ورسز‘ لکھی تھی تو اس کے خلاف تحریک برطانیہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت برطانوی مسلمان ہر ملک سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر التجائیں کرتے رہے کہ صرف اس کے ناشر پینگوئن پر اپنے یہاں پابندی لگادو تو یہ کتاب خود ہی واپس لے لے گا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
دنیا بھر میں ہنگامے شروع ہوگئے۔ مرحوم آیت اللہ خمینی نے خبر ٹیلی ویژن پر دیکھ کر اپنوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔ اصل بات معلوم ہوتے ہی جو فتوہ سامنے آیا اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ نیتوں پر شبہ کرنے والوں سے تو اس وقت بھی عجیب عجیب باتیں کی تھیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ مگراس وقت کے سب سے بڑے عالم شیخ بن باز نے خمینی کا فتوہ سننے کے بعد، تبصرہ کیا تھا کہ، “خدا کی قسم خمینی سچ کہتا ہے” اللہ تعالیٰ شیخ بن باز کے درجات بلند فرمائے افسوس کہ وہ بھی کھل کر کبھی یہ بات نہ کہہ پائے۔
بہر حال جہاں تک تاریخ کی بات ہے، اب تک شیعوں پر جو بھی الزام رہا ہو، سات اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد مسجد اقصیٰ، فلسطین اور عالم اسلام کی جو تاریخ لکھی جائے گی اس میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ جس وقت مسجد اقصیٰ کے وجود کو خطرہ تھا اور اس کے تحفظ کے لئے نہتے فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان کی مدد کے لئے شیعوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے مگر فلسطنیوں کے ہم مذہب، ہم مسلک اور ہم زبان دشمنوں کو یقین دلارہے تھے
کہ “ہم اچھے بچے ہیں، ہم ان کے دفاع کے لئے ان کے مظالم باوجود خاموش ہی رہتے لائے جائیں گے”اور عالم انسانیت شاھد ہے،یہود ونصاری بربریت پر بھی، مالک دوجہاں کی طرف سے عطاکرہ پیٹرو ڈالر معدنیاتی دولت سے سرشار ،ایک چوتھائی سے بھی زیادہ مسلم حکمران،اسلام دشمن یہود و نصاری حکومتوں کے ہمنوائی میں مسلک مسلک کھیل رہے تھے۔
چلیں اب میں آخری بات کہتا ہوں۔ اگرآپ شیعوں کو ناقابل بھروسہ اور غیر مسلم بھی سمجھتے ہیں تو کم از کم کلام پاک کی سورۃ روم کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اس وقت کے مسلمانوں کو ہی، جہادی سنت زندہ کرنے کے لئے، اپنے رویے میں تبدیلی لانے مائل کروالیں. بقلم محمد غزالی خان