تیسری عالمی جنگ سر پر کھڑی ہے !
ایران نے اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور اپنے ہاںبار ہا مداخلت سے تنگ آکر اسرائیل پر مزائل داغ دیئے ہیں ، اس کے بعدایران اپنے اسرائیل پر حملوں کا وہی جواز پیش کررہا ہے، جو کہ اسرائیل غزہ اور لبنان پر بمباری کے بعد پیش کرتا آرہا ہے، اسرائیل نے غزہ اور لبنان پر جب بھی حملہ کیا ہے تو یہ ہی کہا ہے کہ ہم تو اپنا دفاع کر رہے ہیں ،ایران نے بھی اسرائیل پر میزائل داغ کر کہاہے کہ ہم نے عالمی قوانین کے تحت اپنے دفاع میں اسرائیل پر حملہ کیا ہے، اسرائیل کا حق دفاع تومانا جارہا ہے،لیکن ایران کا وہی حق دفاع نہیں مانا جارہا ہے، بلکہ ایران پر دبائو بڑھایا جارہا ہے ،اس کو جوابی سخت کاروائی کا عندیہ دیا جارہا ہے
،اس پرایرانی صدر کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے کوئی جوابی کارروائی کر نے کی کوشش کی تواس پر ایران کا جواب زیادہ سخت اور طاقتور ہوگا۔اگردیکھاجائے تو اسر ائیل کی بڑھتی جارحیت اور بے جا مداخلت کے باعث ایران نے اسرائیل پر حملہ تو کر دیاہے ، لیکن اس تنازع کو بڑھاوا دینے کے حق میں نہیں ہے، اس لیے ہی بار بار متنبہ کر رہا ہے کہ اگر اسرائیل نے مزید اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا
تواس پر ردِعمل زیادہ شدید ہو گا اور محض عسکری تنصیبات ہی نہیں، اسرائیل کے انفراسٹرکچر کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، جبکہ اسرائیل ایرانی حملوں کے بعد سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات دے رہا ہے اور اس کی جانب سے ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے ، اس سے اندیشہ بڑھتا جارہاہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ایرانی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تو یہ کشیدگی مزید شدت اختیار کرجائے گی اور دونوں جانب کے اتحادی بھی شایداس جنگ میں براہِ راست ملوث ہو جائیں گے،یہ صورتحال دنیا ئے امن کیلئے ایک بھیانک خواب ہی ثابت ہو گی۔
دنیا آٹھ عشروں کے بعد عالمی جنگوں کی المناک یادوں سے ابھی تک نکل نہیں پائی ہے ،اس کے باوجو ایک نئی عالمی کشیدگی کی جانب دھکیلا جارہا ہے ، یہ عالمی سطح کی کشیدگی کا تصور ہی خوفزدہ کر دینے والا ہے، اس موقع پر عالمی طاقتوں کو زیادہ محتاط اور متحمل طرزِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر ہی جلتی پر مزید تیل چھڑک رہے ہیں،ایران کے خلاف اتحاد بنارہے ہیں اور ایران کو سبق سکھانے کی کوشش کررہے ہیں ، اس سے حالات مزید خراب ہی ہوں گے ، اگر غزہ جنگ کے بعد ہی اسرائیل کا ہاتھ روکا لیاجاتا تو شاید اس حد تک حالات کشیدہ ہی نہ ہوتے، مگر عالمی طاقتوں کی بے جا حمایت نے عالمی امن کو انتہائی خطرات سے دوچار کر دیا ہے، اس خطر ناک صورتحال سے عالمی طاقتیں ہی باہر نکال سکتی ہیں ،لیکن اس سے عالمی طاقتیںہی گریز کررہی ہیں۔
عالمی طاقتوں کو ایسی دوغلانہ پا لیسی اختیار کر تے ہوئے مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی آگ مزیدبھڑک اُٹھی تواس کے اثرات سے دنیا کا کوئی خطہ بھی محفوظ نہیں رہے گا، یہ خطہ مشرق و مغرب کا سنگم ہے اور اس میں ہی اہم عالمی بحری گزر گاہیں ،اس جنگ کے پھیلنے سے پوری دنیا میں سپلائی چین متاثر ہو گی اور تمام عالم کو ہی مختلف النوع کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے ا ضروری ہے کہ اس کشیدگی کو بڑھا نے کے بجائے کم کرانے کی مخلصانہ کوشش کی جائے،عالمی سیاست کی غالب مصلحتوں سے باہر نکل کر اسرائیل کی جاری جارحیت روکنے کی کوشش جائے اور اس غلطی کا ازالہ کر نے کی بھی کوشش کی جائے ،جوکہ ان مغربی طاقتوں نے عر صہ دارز پہلے مل کر کی تھی ۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت رہی ہے کہ فلسطین میں صہیونی ریاست کے نام پر فساد کا بیج دوسری عالمی جنگ کی فاتح مغربی طاقتوں نے ہی مل کر بویا تھا ، اس کی ناجائزیت کو اسرائیل کے بانی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے بھی تسلیم کیا کہ یہ حقیقت ہمیں جھٹلانی نہیں چاہیے کہ ہم غاصب ہیں اور وہ اپنا دفاع کر رہے ہیں، لیکن ہمیںماضی کو کریدنے کے بجائے آج کے حقائق پر توجہ دینی چاہیے اور یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ اس خطے سمیت پوری دنیا میں پائیدار امن کا نسخہ دو ریاستی حل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام‘ جس کا مرکز القدس شریف ہو‘ تنازع فلسطین کا واحد قابلِ عمل اور قابلِ قبول حل ہے، اس کے بغیر امن قائم نہیں ہو پائے گا ،جبکہ اس وقت مختلف بحرانوں میں گھری پوری دنیا کو ہی امن کی اشد ضرورت ہے‘ اس کیلئے تنازع فلسطین کا منصفانہ حل ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے،اس تنازع کے حل کی جانب ہی عالمی طاقتوں کو بڑھنا چاہئے اور ایران پر جوابی حملے سے گریز کر نا چاہئے ، اگر اس مر حلے پر امر یکہ اور اہل مغرب نے سمجھ بوجھ سے کام نہ لیا تو پھر تیسری عالمی جنگ سر پر کھڑی ہے ، اسے کوئی روک پائے گا نہ ہی اس سے کوئی بچ پائے گا !