چور دروازے سے چوریاں ہوتی رہیںگی!
ُٓ پا کستان کے اعلی اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز لوگوں کی ملازمت میں توسیع دینے کی رویت عام چلی آ رہی ہے، لیکن اس رویت سے مسائل میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہو تارہا ہے ، اس لیے اداروں میں توسیع ملازمت کی روایت بند ہونی چاہیے ،اس مناسبت سے پہلا اچھا فیصلہ سامنے آیاہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے خود ہی معذرت کرلی ہے ،یہ اُن کا ایک مستحسن فیصلہ ہے، اس پر اللہ تعالی قائم رہنے کی تو فیق دے ، انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار تو کر دیا، لیکن اپنے ساتھیوںکو ملازمت میںتوسیع دینے کی اجازت دیے دی ہے، یہ راستہ کھلنا ہی نہیں چاہیے تھا، اگرچور دروازہ ہوگا تو چوریاں ہوتی ہی رہیںگی۔
اس ملک میں جب بھی کسی اعلی عہدیدار کی مدت ملازمت ختم ہو نے لگتی ہے تو اس کی ملازمت میں توسیع بارے ایک شور بر پا ہو جاتا ہے یا خود ہی شور بر پا کر یا جاتا ہے ،آجکل چیف جسٹس سپریم کورٹ کی مدت ملازمت میں توسیع بارے بہت کچھ کہا جارہا ہے ، اس بارے جب چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے پو چھا گیا کہ رانا ثنا اللہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں؟ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ایک میٹنگ ہوئی تھی،
اس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان موجود تھے، اس میٹنگ میں رانا ثنا اللہ موجود نہیں تھے، اس میںبتایا گیا کہ تمام چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں، اس پرمیں نے کہا کہ باقیوں کی کر دیں ،میں اپنے لیے قبول نہیں کروں گا، چیف جسٹس نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع سے تو منع کردیا ،لیکن دیگر کیلئے توسیع دینے کی اجازت کیوں دی ہے،اگر یہ راستہ کھلارہے گا تو ملازمت میں تو سیع بھی ہوتی رہے گی اور معاملات سدھر نے کے بجائے مزید بگڑتے ہی رہیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو یہاں پر کوئی معاملات سلجھانا چاہتا ہے نہ ہی اس کیلئے کوئی تکودو کررہا ہے ، یہاں پر سارے ہی اپنے معاملات درست رکھنے پر لگے ہوئے ہیں ، جسٹس فائز عیسیٰ نے مدت ملازمت کی توسیع سے خود کو بڑی صفائی سے نکال لیا ہے ، لیکن اس میں دوسروں کو بری طرح دھکیل دیا ہے ،انہیں بھی چاہئے کہ اس دلدل سے باہر نکل آئیں ، کیو نکہ اس دلدل میں گر نے کے بعد ماسوائے تنقید کے کچھ حاصل نہیں ہو تا ہے ، اس ملک میں آج تک جس نے بھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کرائی ہے
، اس پر انگلیاں ہی اٹھائی جاتی رہی ہیں ، اس پر تنقید کے نشتر ہی چلائے جا تے رہے ہیں ، اس تنقیدمیں توسیع دینے والے بھی برابر کے شریک کار رہے ہیں ، یہ آزمائے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اپنے مفاد میں مدت ملازمت میںتوسیع دیتے ہیں اور بعدازاں تنقید بھی کرتے رہتے ہیں ، یہ آزمائے حکمرانوں کے قول فعل کا ہی تزاد رہا ہے کہ اس کے باعث معاملات سلجھ پارہے ہیں نہ ہی آگے بڑھ پارہے ہیں، بلکہ مزید خراب سے خراب تر ہی ہوتے جارہے ہیں۔
اگر ملک کے حالات کو بہتر بنانا ہے اور ملک میں استحکام لانا ہے تو ہر ایک کو اپنی کوتاہیوں مانتے ہوئے ان کا آزالہ کر نا ہو گا ، ایک دوسرے کو مانا ہو گا ،ایک دوسرے کو قبول کر نا ہو گا اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ، یہ ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے کی روش کو ترک کرنا ہو گا ،ہر ایک کو اپنا قبلہ درست کر نا ہو گا ، یہاں پر کوئی دودھ کا دھلا ہے نہ ہی مقدس گائے ہے
، یہاں پر ہر کوئی کسی نہ کسی گندے حمام سے نہایا ہوا ہے ، ہر ایک کی فائل ہے ،ہر ایک کی ویڈیو بنی ہوئی ہے اور جس کی فائل اور ویڈیو نہیں ہے ،اس کو طاقت کے زور پر مجبور کر دیا جاتا ہے ، عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے یا کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے ،یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا ، اس سب سے باہر نکلنا ہو گا ، ہر چور دروازے کو بند کر نا ہی ہو گا ، اس ملک میں جب تک چور دروازے کھولے رہیں گے اور اس سے چور استفادہ حاصل کرتے ہی رہیں گے ، عوام کی نظر یں ایوان پا ر لیمان اور عدلت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں ، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی توسیع ملازمت کا بل منظور کر نے اور اس بل کو درست قرار دینے کے بجائے اسے سب کے لیے ہی ممنوع قرار دے دیے تو بہت بڑا کام ہوگا،ورنہ اس چور دروازے سے چوری ہوتی ہی رہے گی اور اس کا خمیازہ سارے بھگتے ہی رہیں گے۔