82

سارے مسائل کا حل گرینڈ ڈائیلاگ !

سارے مسائل کا حل گرینڈ ڈائیلاگ !

دنیا کے صحت مندجمہوری نظام میںمنتخب نمائندے ہی عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں،لیکن اگر عوام کے منتخب نمائندئوں کی ہی آواز ایوان پار لیمان میں دبنے لگے اوربے اثر ہونے لگے تو ارکان پارلیمان اور عوام دونوں کاہی ایوان پا رلیمان سے اعتماد اُٹھنے لگتا ہے اوروہ ایوان پارلیمان چھورنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)کے سربراہ سردارخترمینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ ہماری آواز جہاں پر سنی ہی نہیں جارہی ہے

،وہاں بیٹھے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔اس ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ بلو چستان ہے،ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح ،جو کہ چند برسوں میں کمرتوڑ مہنگائی کے باعث 33سے بڑھ کر 40فیصد پر پہنچ گئی ہے،اس کی اکثریت بلوچستان سے ہی تعلق رکھتی ہے،ایک طرف بلو چستان کے لوگوں کو مہنگائی مار ہی ہے تو دوسری جانب ان کی حق تلفی ہورہی ہے ،

بلو چستان کے لوگوں کو حق رائے دہی دیاجارہا ہے نہ ہی ان کے وسائل پر ان کا حق مانا جارہا ہے ،اس پر عوام کے کچھ منتخب نمائندے آواز اُٹھاتے ہیں تو ان کی آوازکو سنا جاتا ہے نہ ہی بلو چستان کے عوام کے مسائل کا کوئی تدارک کیا جاتا ہے ، اس لیے ہی تنگ آکر جہاں بلو چستان کے عوام سراپہ احتجاج ہیں ،وہیں عوام کے منتخب نمائندے بھی ایوان پارلیمان سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہورہے ہیں ۔
یہ بات کوئی مانے نہ مانے،لیکن اس بات میں سچائی ہے کہ حکومت بے اختیار اور ایوان پار لیمان اپنی ساکھ کھو چکی ہے ، اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ،ارکان پار لیمان ہی رہے ہیں ، ارکان پارلیمان جب دوسروں کے اشاروں پر چلیں گے اور ایوان پارلیمان کے بجائے فیصلے کہیں اور ہو ں گے اور ان فیصلوں پر ایوان اپنی مہر لگائے گی تو پھر ایسا ہی کچھ ہو گا ،جوکہ ہورہا ہے ،اس کے خلاف کوئی آواز اُٹھا پارہا ہے نہ ہی روک پارہا ہے ، اگر کوئی آواز اُٹھاتا ہے تو اس کی آواز کو دبادیا جاتا ہے یا پا بند سلاسل کر دیا جاتا ہے ،

اس کے باوجودسردارخترمینگل جیسے کچھ ارکان پارلیمان بڑی جرأت سے نہ صرف آواز اُٹھا رہے ہیں ، بلکہ اس بے اختیار پارلیمان سے استعفیٰ دیے کر اپنی عوام کے سامنے سرخروبھی ہورہے ہیں ،سردارخترمینگل کا ایوان سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ میرے 65ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے، لیکن میں ان سے معافی مانگتا ہوںکہ ُان کے لئے پارلیمان میں کچھ کرسکانہ ہی اُن کا حق دلاسکا ہوں ، لیکن ایوان سے استعفیٰ دیے کر ثابت کررہے ہیں کہ اپنی عوام کیلئے ایوان میں آئے اور عوام کیلئے ہی ایوان سے جارہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تواس وقت سرداراختر مینگل کا استعفیٰ اس ماڈل کی ناکامی کا آغاز ہے، جو کہ 8 فروری 2024ء کو لایا گیا، اس ماڈل کو کامیاب بنانے کیلئے ہی کنٹرول ڈیموکریسی اور کنٹرول اداروں کی کوشش کی جا تی رہی ہے، لیکن بلوچستان میں کنٹرولڈ ڈیمو کریسی ناکام ہوچکی اور ادارے کنٹرول کے خلاف مزحمت ہورہی ہے ، اس کے باوجود کنٹرول ناکام ماڈل کو ہی کا میاب بنانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ، اس جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی تو جہ دلائی ہے

کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت نہیں ہو سکتی ہے ، اس جمہوری نظامِ میںممبرانِ اسمبلی براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں‘ اس لیے وہ ہی عو امی نبض کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں اور عوام میں اثر ورسوخ بھی رکھتے ہیں،لیکن اہل سیاست کو ہی دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے اور اہم فیصلہ سازی سے باہر رکھا جارہا ہے ،اس سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہو رہا ہے، اس کی کوئی پروا کررہا ہے نہ ہی اس کی تلافی کر نے کی کوشش کررہا ہے۔
مو لا نا فضل الر حمن کا ایوان پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہنا بالکل بجا ہے ، لیکن ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کا
وجود برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں نہ ہی ایک دوسرے سے مکالمہ کررہے ہیں ، اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتیں اُٹھا رہی ہیں اور جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگائے جارہی ہیں ،لیکن اس سب میں بھول رہی ہیں کہ اس وقت ملک تاریخ کے ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے ، اس کے باوجود سیاسی قیادت اپنی اَنا کی قربانی دیے رہی ہے نہ ہی مقتدرہ اپنی ضد چھوڑ رہی ہے ،اس لیے ہی سیاسی انتشار تھمنے کا نام لے رہا ہے نہ سماجی ہیجان کم ہو رہا ہے، لیکن اس سب کے باوجود‘یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ سارے مسائل کا حل گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ہی نکلے گا،اس گہری کھائی سے سیاسی مفاہمت کے بغیر باہر نکلنا جاسکتا ہے

نہ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے،لیکن مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ ہر فریق اپنی غلطی تسلیم کرے اور ایک دوسرے کو برداشت اور معاف کرنے کا حوصلہ پیدا کرے ،ہماری سیاسی و غیر سیاسی قیادت ملک وقوم کے مفادمیں اتنی سی قربانی دیے کر عوام کے دل جیت سکتے ہیں اور ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں