سیاسی اتحاد نا گزیر ہے ! 29

نئے عزم سے نئے سیاسی سفر کا آغاز!

نئے عزم سے نئے سیاسی سفر کا آغاز!

سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے،اگر ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل رہے تو ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے، لیکن اگر ملک سیاسی انتشار کا ہی شکار رہے تو غیر ملکی سرمایہ کاری دور کی بات، اپنے ملک کے کا روباری بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ،پاکستان کچھ ایسے ہی حالات سے گزررہا ہے، ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال دن بدن بے لگام ہوتی جارہی ہے، ا س سے کاروباری طبقے کا ہی اعتماد بری طرح متاثرنہیں ہورہا ہے ،بلکہ عام آدمی بھی بے اعتمادی اور بے یقینی کا شکار دکھائی دیے رہا ہے، یہ صورتحال ملک کی بقاء وسلامتی کے لئے حقیقی طور پر سنگین خطرات کاباعث بن سکتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت پا کستان کو سب سے زیادہ سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ، لیکن اس جانب ایک قدم بھی بڑھا نہیں پارہے ہیں ، اس بار عام انتخابات سے استحکام کی بڑی اُمیدیں وابستہ کی جارہی تھیں ، مگر اس کا نتیجہ بھی اُ لٹا ہی نکلا ہے ، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ناکامی کی وجہ سے انتخابات مزید سیاسی کشیدگی اور عالمی سطح پر ساکھ خراب کرنے کا ہی سبب بنے ہیں ، اس کے باعث ملک میں جلد سیاسی استحکام آنے کی اُمید ہر گزرتے دن کے ساتھ ماند پڑتی جارہی ہے ۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے، جب کہ ملکی معیشت مسلسل گرداب میں پھنسی ہوئی ہے ،اس بات کا اعتراف خود وزارت خزانہ نے اپنی نئی رپورٹ میں کیا ہے کہ ہمیں آنے والے سالوں میں مزید مشکل صورتحال کا ہی سامنا رہے گا،جبکہ عوام کی قوت خرید پہلے ہی بجلی ،گیس کے بلوں اور چالیس فیصد کی حد کو چھوتے افراد زر نے ختم کر کے رکھ دی ہے ، عوام کی قوت خرید ہی جہاں پر نہ رہے ،وہاں معیشت کیسے ترقی کر سکتی ہے ، جبکہ صنعتی شعبہ بھی زوال پذیر ہے ،پا کستان کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل ملیں بڑی تعداد میں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں ،وہ گیس ،بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے سے بند ہونے کا خطرہ ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی و معاشی عد استحکام کا شکار ہوتا جارہا ہے اور اہل سیاست کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دیوار سے لگانے سے ہی فر صت نہیں ہے ،ایک طرف انتخابات میں ہارنے والے شراکت اقتدار کے فار مولے کے تحت اقتدار کی بندر بانٹ کررہے ہیں تو دوسری جانب جتنے والے اقتدار نہ ملنے پر سراپہ احتجاج ہیں اور اس احتجاج کے دوران کہہ رہے ہیں

کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے کہ اس ملک میں انتخابات صاف و شفاف ہوئے ہیں نہ ہی عوام کے حق رائے دہی کو مانا جارہا ہے ، اگر انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوئے تو پھر کوئی ادارہ ایسے ملک کو قرض دینے سے گریز ہی کرے گا ۔یہ بات طے ہے کہ اس قسم کے بیانات سے معیشت کیلئے مزید مسائل ہی کھڑے ہوتے نظر آرہے ہیں ، کیو نکہ اس وقت تحریک انصاف سیاسی نظام کی بڑی سٹیک ہو لڈر اور اپوزیشن جماعت ہے ،

گزشتہ برس عالمی مالیاتی ادارہ نے پروگرام کی بحالی سے قبل پی ٹی آئی قیادت کو آن بورڈ لیا تھا ،اس بار بھی اپوزیشن قیادت کو آن بورڈ لیے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھیں گے ، جبکہ نو منتخب حکومت کا پہلا کام ہی آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ اہل سیاست اپنی ذاتیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد میں اکھٹے بیٹھیں اورمل جل کر اپنے سارے الجھے معاملات سلجھائیں ،ورنہ اندرونی اور بیرونی مداخلت سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگاڑ کا ہی باعث بنیں گے۔
اس وقت ملک کو داخلی سطح کے علاوہ خارجی محاذ پر بھی ان گنت مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ،یہ سارے مسائل ھل کرنے کے ساتھ عوام کی توقعات پر پورا اُترنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے ، اس سے نبر آزما ہونے کیلئے نو منتخب حکومت کو کچھ معمول سے ہٹ کر اقدامات کرنا ہوں گے ،اشتراک اقتدار کا فار مولا طے پاجانے کے بعد اب سیاسی قیادت کو اپنی اگلی ترجیحات اور آئندہ کے لائحہ عمل پر فوکس کرنا چاہئے ،حکومت سنبھالتے ہی فوری آئی ایم ایف سے مذاکرات کا جو مرحلہ در پیش ہے ،اس میں عالمی مالیاتی ادارے کو نرم شرائط پر کیسے راضی کرنا ہے

اور عوامی رلیف پیکج کے علاوہ توانائی کی قیمتوں مٰں کمی سمیت متعدد ایسے فیصلے ہیں ،جوکہ نئی حکومت کیلئے عوامی سند کا فیصلہ کریں گے ،لہذا حکومت سازوں کو اپنی توجہ انتقامانہ اقدام کے بجائے مثبت امور کی جانب مبذول کرانا ہو گی ، مذاحمت کے بجائے مفاہمت کی روش اپنانا ہو گی ، ایک نئے جذبے ، نئے عزم کے مثبت رویئے کے ساتھ نئے سیاسی سفر کا آغاز ہی ملک وقوم کو تعمیرو ترقی کی منزل سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں