مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس ! 36

سلیکشن نہیں ،الیکشن کروایئے !

سلیکشن نہیں ،الیکشن کروایئے !

ملک میں عام انتخابات قریب آتے ہی ملکی سیاست میں بیرونی قوتیں بھی متحر ک دکھائی دینے لگی ہیں، امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر سیاسی قیادتوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور ان ملاقاتوں میں سیاسی و معاشی صورتحال کے ساتھ خاص طور پرعام انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جارہا ہے ،

تحریک انصاف نے ان ملاقاتوں کونہ صرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کیا ہے،بلکہ اس سازش کا تسلسل ہی قرار دیا ہے کہ جس کے تحت اُن کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تھا۔
یہ پا کستان میں کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، اس سے قبل جب بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں ، انتخابات سے پہلے ایک ایسی ہی فضاء بنائی جاتی رہی ہے ، اس بار بھی مختلف ملاقاتوں کے ذریعے وہی فضاء بنائی جارہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں کو نسی پارٹی کا میاب ہو نے والی ہے اور اس پارٹی کو کن اندرونی و بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے ،اس پشت پناہی کے زُعم میں ایک طرف مسلم لیگ( ن ) قیادت انتخابی برتری کا عندیہ دیے رہے ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی قیادت بھی انتخابات میں سر پرائز دینے کی باتیں کررہے ہیں ،آئندہ انتخابات میں کون کا میاب ہو گا اور کس کی جانب سے سر پرائز ملے گا ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم اس کیلئے انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔
اس ملک میں آزادانہ منصفانہ شفاف انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہیں ، اس بارے باتیں تو سبھی کرتے ہیں ، لیکن اس پر عمل کرتے ہوئے سب کے ہی پرَ چلنے لگتے ہیں ، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے ہی سارے مواقع ملیں اور اس کا مخالف محروم رہے ،لیکن اس طرح کے انتخابات کی کوئی ساکھ ہوتی ہے نہ ہی کوئی نتائج مانتا ہے ، اگر انتخابات کی ساکھ اور نتائج کو منوانا ہے تو پھر سب کو نہ چاہتے ہوئے بھی یکساں مواقع دینے ہی پڑیں گے ، انتخابات میںلیول پلینگ فیلڈ کی شکایات کر نے والوں کو بھی چاہئے

کہ ان کے جو بھی تحفظات ہیں ،انہیں متعلقہ اداروں تک نہ صرف پہنچایا جائے،بلکہ اس کے ازالے کیلئے تجاویز بھی دی جائیں ، زبانی کلامی دعوئوں سے معاملات حل ہو گے نہ ہی شکوئے شکایت سے مسائل کا تدارک ہو پائے گا ، اس کیلئے متعلقہ اداروں کو ہی سنجید گی سے ذمہ دارانہ کردار ادا کر نا ہو گا ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ملک میں انتخابی نظام کیلئے قاعدو ضوابط اور قوانین توسارے موجود ہیں ،لیکن ان پر درست طریقے سے عمل درآمد ہی نہیں ہو پارہا ہے ، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ساتھ نگران حکومت کی بھی اہم ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد پورے قاعدے وقانون کے مطابق ہی کرائے ،تاکہ شفاف و غیر جانبدار انتخابات کی ساری شرئط پوری ہو سکیں ،لیکن اس حوالے سے ہماری تاریخ قابل رشک نہیں رہی ہے

،یہاں پر ہر بار انتخابات میں اداروں کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کا شور ہی اُٹھتا رہا ہے، اگر متعلقہ ادارے چاہیں تو اس بار اپنے ذمہ دارانہ کردار سے انتخابی سیاست کی نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں ، اپنے ماضی کے سیاح دھبے صاف کر سکتے ہیں ، لیکن یہاں ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
اس ملک میں پون صدی گزر جانے کے باوجود آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکاہے کہ اصل طاقت کا سرچشمہ کون ہے تویہاں پر شفاف انتخابات کیسے ہوسکتے ہیں،اس ملک میں جس نے طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دینے کی غلطی کی ہیاور آزادانہ شفاف انتخابات کی بات کی ہے، اسے اتنی ہی بڑی قیمت چکانا پڑی ہے،اس ملک کے عوام طاقت ور ہیں نہ ہی یہاں کوئی سول بالا دستی کا کوئی وجود رہاہے ، اس ملک میں متعدد بار آمروں نے جمہوریت حکومتیں ختم کر ساری خوش فہمیاں ہی دور کر دی ہے کہ یہاںپر کوئی سو ل بالا دستی قائم ہو سکتی ہے، اس ملک میں آمروں کو کن لوگوں نے سہارے دیئے ،

یہ تاریخ کے صفحات پر واضح ہے ، یہ وہی لوگ تھے کہ جنہوں نے واضح پیغام دیا کہ یہ ملک عوام کا نہیں بالا دست اشرافیہ کا ہے، اس اشرافیہ کا قانون بھی اپنا ، نظام بھی اپنا اورملکی وسائل بھی اپنے ہیں،اس کے بعد تین دہائیوں سے زیادہ راج کرنے والوں کے بارے بحث تو چلے گی کہ بالا دست کون ہے اور کون الیکشن کے پیچھے سلیکشن کرتارہا ہے ؟اس بار بھی الیکشن کے پیچھے سر عام سلیکشن ہورہی ہے

اور اس میںاندرونی و بیرونی قوتیں سر گرم عمل ہیں ، لیکن بڑے بڑے سوما بھی کھل کے نام لینے سے کترارہے ہیں کہ سلیکٹرز کون ہیں؟ کیو نکہ اُن کا نام لیتے ہوئے ہاتھ جلنے اور زبان کٹنے کا خوف طاری ہو جاتا ہے ،اس کے با وجود ہمت کرکے کہنا پڑے گا کہ اس بارسلیکشن نہیں ،الیکشن کروایئے ، اس میں ہی ملک وقوم کی بہتری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں