آہ! طارق عزیز مر کے بھی رائیگاں نہ جائیں گے ہم۔”
ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے،سنتے کانوں ، دیکھتی آنکھوں آپ کو طارق عزیز کا سلام، پھر گفتگو ہوتی تھوڑی سی مگر پیغام آفاقی ہوتا اور سب سے شاندار بات یہ ھوتی کہ وہ چند ابتدائیہ کلمات ھر کسی کے دل میں اتر جاتے، اسلام اور پاکستان کا درد رگ و پے
میں سرایت کر چکا تھا اسی جذبہ سے “پاکستان زندہ باد” کے فلک شگاف نعرے سے بلند ہوتا، پھر ھر دل پاکستانی ہو جاتا۔یہ تھے جناب طارق عزیز جو ہم میں نہ رہے۔ طارق عزیز 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے اور 17 جون 2020ء کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے،
ھمارے دلوں کو علم اور یقین سے روشن کرنی والی شخصیت ہمارے ماموں تھے، ان کا بھی یوم وفات اج تھا، طارق عزیز کی خبر سن کر وہ بھی بے تحاشا یاد آئے کیونکہ میں اکثر عمر میں مماثلت کرتے ہوئے، عبدالعزیز صاحب اور طارق عزیز صاحب کو دیکھتا تھا کہ دونوں ہم عمر اور اقبال کے گرویدہ ہیںطارق عزیز کا فنی سفر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے شروع ہوا تھا،
اور جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز اس کے پہلے اناؤنسر بنے، وہ دن اور آج تک وہ پی ٹی وی کا اثاثہ ہیں، آج پی ٹی وی ایک طرح سے یتیم ہوگیا، میں نے خود طارق عزیز سے متاثر ہوکر سکولوں، کالجز اور مختلف تقریبات میں کمپئرنگ شروع کی تھی
اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، بچہ بڑا، جوان اور خواتین پی ٹی وی کا پروگرام نیلام گھر لازمی دیکھتے تھے اس جدید دور میں بھی کئی ٹی وی چینلز نے ان کی نقل پر پروگرام شروع کیے مگر وہ چاشنی نہ پیدا کر سکے۔ہمارا بچپن، لڑکپن اور جوانی نیلام گھر دیکھتی گزری اور طارق عزیز شو تک
تعلق قائم رہا، ہم تھک ہار گئے لیکن طارق عزیز جوان ہاتھوں سے لرزتے ہاتھوں تک بوڑھے نظر نہیں آئے اور اسٹیج اور مائیک کے ساتھ آن کا رشتہ برقرار رہا۔انہوں نے فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، کبھی سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی رہی ہے، جناب ذوالفقار علی بھٹو کے
سیکرٹری کے فرائض سر انجام دئیے، میں نے اوائل عمری میں ان کی کتاب “داستان” پڑھ لی تھی، آج بھی اگر کسی نے بھٹو صاحب کی سیاست کے گر سمجھنے ہیں تو وہ داستان ضرور پڑھے، اس میں بھٹو صاحب کی سیاست کے ہنر بیان ہیں، طارق عزیز اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے،
ان کا گھر کتابوں سے اٹا ہوا ہے، اگرچہ اپنی اولاد نہیں تھی، لیکن ان کے گھر ہزاروں کتابیں ہی ان کی اصل اولاد ہے۔اپنے اثاثے وہ پاکستان کے نام کر چکے تھے، طارق عزیز اردو اور پنجابی کے شاعر بھی تھے
اور اکثر فی البدیہ شعر کہنے کا ہنر رکھتے تھے، طارق عزیز سیاست سے بد دل تھے کہ میاں نواز شریف انہیں پھر گھونت گانت کر سیاست میں لے آئے، اور وہ لاھور سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور میاں نواز شریف کے
درمیان کشمکش نے سپریم کورٹ پر حملے کی ایک نئی بھیانک تاریخ رقم کی۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ حملہ کیس میں ملوث افراد کے ساتھ طارق عزیز کی تصویر سے انہیں سیاسی نااہلی کا شکار ہونا پڑا ،
حالانکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سپریم کورٹ پر حملہ ہورہا ہے،انہوں نے قسمیں بھی اٹھائیں لیکن ان کا جواب، جواز نہ بن سکا۔اس کے بعد انہوں نے سیاست اور نواز شریف دونوں سے توبہ کرلی۔البتہ عمران خان کی طرز سیاست کے حامی تھے، ایسے محب وطن پاکستانی ھمیشہ
سیاست میں سماجی تبدیلی کے خواہاں رہتے ہیں جب بھی آواز آئے دوڑ کر شامل ہوتے ہیں ، اکثر بد دل ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں، البتہ تبدیلی کی خواہش ان کی ارتقائی فکر کا حصہ ہوتی ہے۔طارق عزیز بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔طارق عزیز اقبال کے سچے شیدائی، اور پاکستان سے دلی محبت رکھنے والے مدبر، ادیب، شاعر اور ایک پروقار شخصیت کے مالک آدمی تھے۔
اگرچہ انہوں نے شاندار زندگی گزاری، شہرت بھی دیکھی مگر تکبر کی ہلکی لکیر بھی پیشانی اور کردار میں نہیں آئی، نیلام گھر نے بڑے بڑے فنکاروں، اداکاروں اور گلوکاروں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔جبکہ نئے آنے والوں کو بھی طارق عزیز کی دعوت ضرور ملی ، نیلام گھر ایک مکمل علمی،
تاریخی، فنی دلکشی اور عوامی چاشنی کا پروگرام تھا، گرجتا ہوا طارق عزیز اس کی جان تھا، آخرکار سفر عدم پر روانہ ہوا، دل افسردہ اور لفظ فریفتہ ہیں، طارق عزیز وہاں چلا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا مگر اس کا دیا ہوا اثاثہ مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ احمد ندیم قاسمی نے
انسان کی عظمت اس طرح بیان کر دی تھی کہ” مر کے بھی نہ ہونگے رائیگاں ہم۔بن جائیں گے گرد کارواں ہم۔۔۔!آج طارق عزیز اسی راستے میں وہ نشان چھوڑ گیا جس کی وجہ سے منزل کا پتہ لگانا دوسرے مسافروں کے لئے آسان ہے۔ الوداع طارق عزیز اور پاکستان زندہ باد۔ہم وہ سیاہ بخت ہیں طارق کہ شہر میںکھولیں دکان کفن کی تو لوگ مرنا چھوڑ دیں۔طارق عزیز