ایک اور میثاق جمہوریت !
ملک میں سیاسی عدم استحکام کم ہو نے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے ، اس عدم استحکام کو استحکام میں بدلنے کیلئے ایک اور میثاق جمہوریت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے ،اس سے قبل دوبڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے میثاق جمہوریت کی تھی، اس پر پوری طرح عملدرآمد تو نہ کیا جا سکا، لیکن دو بڑی سیاسی جماعتیں کسی حد تک جمہوری سیاست کی طرف لوٹ آئی تھیں اور بلاوجہ کی رسہ کشی کا خاتمہ ہو گیاتھا ، ملک میں جمہوری سیاست کی گاڑی پٹڑی پرچڑھ گئی تھی
،لیکن اس گاڑی کو پٹری سے اُتارنے کے لئے جو متبادل کا ناکام تجربہ کیا گیا، اس کے نتائج بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہے ہیں، اگر جمہوریت کی گاڑی کوتسلسل سے چلنے دیا جاتا تو آج ملک میں ایک اور میثاق جمہوریت اور ایک عمرانی معاہدے کے مطالبات کی نوبت نہ آتی،لیکن اگرحکو مت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسانے کی بجائے ایک بار پھر میثاقِ معیشت اور میثاقِ جمہوریت کر لیں تو ملک میں نہ صرف سیاسی اور معاشی استحکام آئیگا، بلکہ پاکستان کا ہر شعبہ ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن بھی ہو جائے گا۔
اگر دیکھا جائے توسیاسی رہنما ئوں کی جانب سے مذاکرات اور مفاہمت کے حق میں بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی مسلسل ٹکرائوکے ماحول سے نکلنا چاہتی ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو اس کیلئے راہ ہموار کرنا ،سیاسی قیادت کیلئے چنداں مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ سبھی ایک دوسرے کے مزاج شناس اور رفقائے کار ہیں،اگرمذاکرات کی راہ میں کوئی مشکل ہے تو وہ سیاسی جماعتوں کے ارادے کی ہی ہے ،گر بات چیت اور مذاکرات کی نیت ہو تو آگے بڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے
، اس کیلئے حکومت اور حزبِ اختلاف کمیٹیاں تشکیل دے کر مکالمے کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں، اگر آغاز ہی میں بھاری مطالبات سامنے رکھیں جائیں گے تو اعتماد سازی میں مشکلات پیدا ہوں گی، اس لیے بہتر ہوگا کہ فریقین اعتماد سازی کیلئے کچھ ایسے بامعنی اشارے دیں کہ جن سے آگے بڑھنے میں آسانی ہو جائے، اس کیلئے دونوں جانب سے منفی بیان بازی کے سلسلے کی بندش اس سلسلے میں پہلا عملی قدم ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے حکو مت اور اپوزیشن کی جانب سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے ، ایک جانب سے مذاکرات کی دعوت تو دوسری جانب سے نیم رضامندی کے ساتھ مذاکرات سے انکار بھی سنائی دیے رہا ہے ، اس کو اقرار میں بدلنے کیلئے حکو مت کوہی ایک قدم آگے بڑھانا ہو گا ، اب گیند حکومت کی ہی کورٹ میں ہے کیونکہ حکومت کو بیان بازی کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کا اختیار ہے،اگر حکومت مذاکراتی عمل کیلئے عزم ظاہر کرے تو کوئی وجہ نہیںہے کہ اس سلسلے میں پیشرفت نہ ہو پائے،
نتائج کا پتا تو وقت آنے پر ہی لگتا ہے، مگر سیاسی قائدین کا ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا بھی کم اہم نہیں ہو گا ،حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام سے ہی جملہ امورِ سلطنت کو قوت فراہم ہو گی ،اس لیے ہی سیاسی رہنمائوں کی جانب سے پائیدار ترقی اور مسائل کے حل کیلئے نئے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت پر زور دیاجارہا ہے ،جو کہ صائب تجویز ہے‘ مگر اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے‘ جو کہ ایک دوسرے کو ماننے اور باہمی احترام سے ہی پیدا ہوگا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس ملک میں استحکام جمہوریت اور میثاق جمہوریت کی حقیقی فضا پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا پڑے گا ، ایک دوسرے کیلئے سیاسی راستہ ہموار کر نا پڑے گا اور ایک دوسرے کو گرانے ،دیوار سے لگانے اور مائنس کر نے کے بجائے پلس کر نا ہو گا ، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کاحوصلہ پیدا کرنا پڑے گا ،
اس بیان بازی سے نکلنا پڑے گا کہ ہم اپنے اتحادیوں سے مل کر ایک لمبی اننگز کھلیں گے ،اہل سیاست کواب باری لینے کے عمل کی بجائے انتخابی کامیابی پر انحصار کرنا ہو گا، اس کے بعد ہی ملک میں جمہوری کلچرفروغ پائے گا اور ملک میں میثاق جمہوریت اور استحکام جمہوریت کی راہ ہموار کر پائے گا، ایک جانب احتجاج کی کال دے کر دوسری جانب مفاہمت کی خواہش کا اظہار بے معنی ہو گا، اسے بامقصد بنانے کے اقدامات کر نا ہوں گے تو ہی مفاہمت کی بیل منڈھے چڑھ سکے گی بصورت دیگر اس کاسوکھ جانا ہی مقدر ٹھہرے گا ۔